مجھے بچہ کہنے والے بزدل خان نوجوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں : بلاول زرداری !
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول زرداری واقعی ابھی تک بچے ہی ہیں اگر وہ بچے نہ ہوتے تو ایسے بچگانہ بیانات ہی کیوں دیتے جس کے بعد سیاسی مخالفین کی جوابی گولہ باری سے ”بچنے“ کی کوئی امید نہیں رہتی۔ ان کے بیانات اور تقاریر کا لب و لہجہ دیکھیں تو غالب کا یہ مصرعہ ذہن میں گونجنے لگتا ہے ....
تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
عمران کو بزدل خان کہنا ان کے پرستاروں اور ورکروں کے لئے کوئی معمولی جھٹکا نہیں سو جواب بھی آیا اور برجستہ آیا، عمران نے بلاول کو بچہ کہا یہ ایک مربیانہ قسم کی چپت تھی جو بڑے پیارے چھوٹوں کے سر پر یا گال پر رسید کرتے ہیں مگر بلاول نے اس پر بھی غصہ کیا حالانکہ عمران نے تو پیار سے اسے بچہ کہا تھا اور عمر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیںناں ....
ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے
اگر بلاول میں سیاسی بلوغیت آئی ہوتی تو ان کی جماعت کی پالیسیوں میں بھی اس کا اثر نظر آنا چاہئے تھا۔ آخر لندن کی پتنگ کاٹنے کی دھمکی دینے والے بلاول کی جماعت نے سانحہ کار ساز پر مسکراہٹوں کے پس پردہ انکی پُرجوش تقریر سے جو جوش اپنی صفوں میں پیدا کیا وہ چند دن بعد ہی صابن کی جھاگ کی طرح اُتر گیا اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ دبئی میں مذاکرات کے ذریعہ کراچی میں اس کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ دورن خانہ معاہدہ کر لیا اور جلد ہی ایم کیو ایم یعنی لندن والی پتنگ اب سندھ پیپلز پارٹی کی حکومت میں دوبارہ پہلے کی طرح حصہ دار ہو گی وزارتیں بھی ملیں گی، مشاورتیں بھی، یوں پہلے ہی راﺅنڈ میں پتنگ نے تیر کا نہ صرف رُخ موڑ دیا بلکہ ثابت کر دیا کہ بلاول صرف ”شو بوائے“ ہے۔ پس پردہ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور ابھی تک دبئی میں مقیم اصل تے وڈی قیادت کے ہاتھ میں ہے جو خود بھی بلاول کو بچہ سمجھتی ہے۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
امریکی ڈرون آپریٹر معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے ذہنی دباﺅ کا شکار، نوکری چھوڑ دی !
ڈبل تنخواہ کے لالچ اور مراعات کے باوجود لگی لگائی نوکری چھوڑنا بڑے دل گردے کی بات ہے مگر لگتا ہے .... ع
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی، یہاں حیات مسکراتی ہے، پھولوں پر تتلیاں منڈلاتی ہیں۔ معصوم بچوں کے قہقہے اس بات کا اشارہ ہیں کہ خدا ابھی تک دنیا والوں سے ناراض نہیں ہُوا ورنہ کب کی قیامت برپا ہو چکی تھی۔ اب یہی دیکھ لیں ناں یہ ڈرون حملے قیامت سے کیا کم ہیں، چشمِ زدن میں ہنستے کھیلتے بچے، کام کرتی خواتین بنا کسی گناہ کے جرم کے چند مطلوبہ افراد کی ٹارگٹ ہلاکت کے زعم میں خاک اور خون میں نہلا دئیے جاتے ہیں، ہنستے بستے گھر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ زندہ اچھے بھلے انسان معذور ہو جاتے ہیں یہ سب کچھ ایک سپر طاقت کے ایک اشارہ¿ ابروپر ہوتا ہے۔ گویا یہ قیامت کسی کی خوشی کیلئے اس کے مقصد کے حصول کی خاطر برپا ہوتی ہے ....
اک جھلک اس کے ارادوں کی یہاں بھی دیکھ لی
فیصلے کے باب میں گو عرصہ محشر تو ہے
اب اس عرصہ محشر میں صور اسرافیل کے کردار ادا کرنے والے ایک ڈرون آپریٹر سے بے گناہوں کے خون اور بچوں کی اموات کا صدمہ برداشت نہ ہو سکا، اس نے ضمیر کے ہاتھوں تنگ آ کر اس نوکری پر ہی لات مار دی جس کا کام صرف موت بانٹنا تھا۔ ڈرون بنائے تو اور ہی نیک مقاصد کیلئے گئے تھے مگر امریکہ نے اس کا نام اور استعمال موت کے کاروبار سے کچھ اس طرح جوڑ دیا ہے کہ اب ڈرون حملہ دہشت اور موت کی علامت بن چکا ہے۔ اگر کہیں قیمتیں بھی بڑھ جائیں تو اسے مہنگائی کا ڈرون حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی طرف سے تو ایک دوسرے پر ”ڈرون حملے“ اکثر و بیشتر جاری رہتے ہیں۔ آفرین ہے اس آپریٹر پر جس نے اپنے اندر انسان کو زندہ رکھا یہی وہ انسان ہے جس کیلئے یہ دنیا بنی ہے اور ہم اپنی بے وقوفی اور وحشت کے ہاتھوں اس کو جہنم بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ کاش ڈرون حملے کرانے والوںکو بھی عقل آ جائے اور وہ اس قتل و غارت کے کھیل سے باز آ جائیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
فلور ملز نے آٹا مہنگا کیا تو روٹی 8 اور نان 10 روپے کا ہو گا۔ نانبائیوں کی دھمکی !
اس خبر کے بعد اب صوبائی وزیر خوراک کی اس طفل تسلی پر کون یقین کرے گا کہ ”آٹے کی قیمت میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا گیا“ ،کسے معلوم نہیں کہ ان کی جماعت کا بھوکا شیر بجلی اور گیس کے بعد اب آٹے پر بھی منہ مارنے لگا ہے اور عوام اسے آدم خور کی بجائے آٹا خور شیر کہہ رہے ہیں۔ اب یہ منطق بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ کسی قسم کا اضافہ سے کیا مُراد ہے۔ یہ فلور ملز والے اپنی مدد آپ کے تحت جو آٹے کی قیمت میں فی بوری 30 روپے اضافے کا جو بھاشن دے رہے ہیں کیا اس کا اثر عوام کے راشن پر نہیں پڑے گا جو پہلے ہی راشن بندی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے کم خوراکی پر راغب ہو چکے ہیں اور اب اگر 8 روپے کا نان 10 کا ہو گیا یا 6 روپے کی روٹی 8 کی ہو گئی تو لوگ گھاس کھانے سے تو رہے البتہ یہ ضرور ہو گا کہ بھوکوں مرنے والے لوگ سڑکوں پر پتھر لئے ہوں گے اور شیر آگے دوڑ رہا ہو گا۔
5 ماہ میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 75 روپے بڑھی اور اب بھی اگر صوبائی وزیر خوراک یہ کہیں کہ آٹے کی قیمت میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہُوا تو یہ ان کی سادگی ہے یا ستم گری ۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭