وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ امریکہ سے ڈرون حملوں کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر جو فضا بن رہی ہے وہ اب مسلمہ حقیقت بن چکی ہے اس سے امریکی انتظامیہ کے موقف کے بجائے پاکستانیوں کا موقف مضبوط ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی اس دورے کی کامیابی اور ناکامی پر تبصرے ہی ہو رہے تھے کہ اقوام متحدہ میں چین‘ برازیل اور ونزویلا کے مبصرین امریکہ پر برس پڑے کہ عالمی حقوق کے چیمپئن ہونے کا دعویدار امریکہ خود ہی پاکستان میں اپنے دعوؤں کی ڈرون حملوں کی صورت میں خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں بعض ناقدین امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ڈرون حملوں کے جاری رہنے کے اعلان کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں راقم کے نزدیک ابھی ایسا کہنا درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس وقت واحد سپر طاقت ہے ان کی اپنی پالیسیاں اور مفادات ہیں جو ہماری طرح ایک ٹیلی فون کال پر ریت کی دیوار ثابت نہیں ہوتیں ان کی بیرونی ممالک کے متعلق پالیسیاں یکسر تبدیل نہیں ہوتیں کچھ وقت ضرور لگتا ہے۔ میں ایسے ناقدین سے مخمصے میں ہوں کہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ امریکی محکمہ خارجہ نے صحافیوں کو دی جانے والی بریفنگ میں وزیراعظم پاکستان اور امریکی صدر کی دو گھنٹوں پر محیط ملاقات کو مثالی قرار دیا ہے اسکے باوجود اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا علمی بددیانتی اور ناانصافی ہوگی۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی طرف سے پہلی بار ڈرون حملوں کے معاملے کو غیر مبہم الفاظ دبنگ لہجے اور مستحکم دلائل کے ہمراہ امریکی عہدیداروں اور اقوام عالم کے سامنے اپنا نقطہ پیش کرکے ان حملوں کے منفی اثرات پر رائے عامہ ہموار کر دی ہے۔ میں ببانگ دہل کہتا ہوں کہ جلد ہی قوم اسکے نتائج بھی دیکھے گی۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون پہلے ہی اگست میں اپنے دورہ پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں صاف لفظوں میں ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ کوئی ایسا اقدام جس سے معصوم لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہو یا پھر انسانی جانوں کو خطرہ ہو وہ غیر قانونی ہے اور اسے بند کیا جانا چاہئے حالیہ دورے سے بیشتر میاں نواز شریف اقوام متحدہ میں اس مسئلے کو پوری قوت سے اٹھا چکے ہیں حالیہ دورہ میں میاں نواز شریف نے امریکیوں سے ایڈ نہیں ٹریڈ کی بات کرکے ملکی وقار کو ایک بار پھر بلند کیا ہے۔ تجارت کی بات کرکے نواز شریف نے کھلے عام امریکیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم سابق آمر کی طرح اقتدار کی خاطر ملکی عزت وقار پر کسی صورت آنچ آنے دینے کیلئے تیار نہیں ۔وزیراعظم نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا بھاشا‘ داسو‘ گونجی ڈیموں میں امریکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی وزیراعظم نے امریکیوں کو دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تجاویز بھی دیں ساتھ ساتھ امریکہ پر بھی واضح کیا کہ اس وقت پاکستان کو جن سنگین چینلجز کا سامنا ہے اس میں دہشتگردی اور توانائی کا بحران سرفہرست ہے یہی وجہ ہے کہ صدر اوباما نے اپنے بیان میں میاں نواز شریف کی تعریف کی اور دنیا پر واضح کیا کہ میاں نواز شریف پاکستان میں دہشت گردی کم کرنے کیلئے پرعزم ہیں پاکستان امن کا متلاشی ہے۔ میں دعوؤں سے کہتا ہوں کہ نواز شریف کا حالیہ دورہ امریکہ اور صدر اوباما سمیت امریکی عہدیداروں سے ملاقات کو مایوس قرار دینا قرینہ انصاف نہیں۔ وزیراعظم کے دورے سے توانائی کے بحران سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملے گی مزید برآں اس دورے سے پاکستان امریکہ کے درمیان سٹریٹجک مذاکرات کیلئے 5 ورکنگ گروپس بنانے کا اتفاق خوش آئند ہے جو مستقبل قریب میں ملکی خستہ حال معیشت کی بحالی میں معاون اور سودمند ثابت ہوں گے اور مخالفین‘ سیاسی بونوں اور عاقبت نااندیش بعض مفاد پرست اینکروں کی بھی زبان بندی ہو جائے گی جو بلاوجہ میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ گردان رہے ہیں۔ سیاسی ادنیٰ ورکر ہونے کے ناطے ملک سے محبت رکھنے والے اکابرین کی طرح میری بھی یہی دعا ہے کہ رب العزت اس ملک کو تاحیات قائم دائم رکھے ۔اب وزیراعظم کا صدر اوباما کو مسئلہ کشمیر کے حل میں ثالثی کردار ادا کرنے کا کہہ کر اس مسئلے کو پھر سے زندہ کر دیا ہے گذشتہ دورہ امریکہ کے دوران اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں بھی میاں نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کا حل کرنے پر زور دیا تھا اور دنیا کو بتایا تھا کہ ایشیا کے پائیدار امن کا واحد حل مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی پنہاں ہے مگر افسوس بعض متلون مزاج اذہان کے مالک اکابرین اس وقت بھی وزیراعظم کے خطاب میں کیڑے نکال رہے تھے جبکہ سیاسی بصیرت رکھنے والے مثبت ذہنوں کے مالک نواز شریف کی اس تقریر کو نیا سیاسی بریک تھرو قرار دے چکے ہیں اس بار بھی وقت ثابت کریگا کہ نواز شریف کی صدر اوباما سے حالیہ ملاقات مستقبل میں نیک شگون ثابت ہو گی۔