12 اکتوبر 1999ءکو فوجی بغاوت کا منصوبہ پہلے سے تیار تھا: جنرل (ر) شاہد عزیز مشرف نے تین جرنیلوں کو نواز حکومت ہٹانے کی ذمہ داری دی‘کتاب میں انکشاف

12 اکتوبر 1999ءکو فوجی بغاوت کا منصوبہ پہلے سے تیار تھا: جنرل (ر) شاہد عزیز مشرف نے تین جرنیلوں کو نواز حکومت ہٹانے کی ذمہ داری دی‘کتاب میں انکشاف

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) 12 اکتوبر 1999ءکی فوجی بغاوت کا منصوبہ پہلے سے ہی تیار کر لیا گیا تھا اور اس سلسلہ میں آرمی ہاﺅس میں کئی اجلاس ہو چکے تھے تاکہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹائے جانے سے قبل ہی درست وقت پر کارروائی کر کے نواز شریف کو ہٹایا جا سکے۔ اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے اپنی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک“ میں انکشاف کیا ہے کہ ٹرپل ون بریگیڈ کے فوجی یونٹس کو 12 اکتوبر سے قبل ہی آپریشن کیلئے تیار رہنے کی ہدایات جاری کر دی گئی تھیں۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے جو لوگ اس منصوبہ کی تیاری میں مصروف تھے ان میں اس وقت کے سی جی ایس لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، اس وقت کے کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل محمود، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل احسان الحق (جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بنے)، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر بریگیڈیئر راشد قریشی (جنہیں بعد میں شولڈر پروموشن دیکر میجر جنرل بنایا گیا)، اس وقت کے پرسنل سٹاف افسر برائے آرمی چیف بریگیڈیئر ندیم تاج (جو بعد میں ڈی جی آئی ایس آئی بنائے گئے) اور اس وقت کے میجر جنرل شاہد عزیز (مصنف) شامل تھے۔ سری لنکا جانے سے قبل جنرل پرویز مشرف نے درج ذیل زبانی ہدایات لیفٹیننٹ جنرل محمود، لیفٹیننٹ جنرل عزیز اور شاہد عزیز (مصنف) کو جاری کیں ”آپ میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے احکامات جاری کرے۔ (کارروائی کرنے اور حکومت کو ہٹانے کیلئے) میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے واضح کیا کہ منتخب حکومت کو ہٹانے کیلئے ان تین افسران کو مجاز قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ ایسی صورتحال جس میں تینوں کو ایک دوسرے سے ملاقات یا بات کرنے کا موقع نہ ملے تو تینوں کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔ جنرل مشرف، لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، لیفٹیننٹ جنرل محمود اور لیفٹیننٹ جنرل عثمانی کو بغاوت کے منصوبہ ساز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کے انکشافات کے مطابق پلاننگ کے مرحلے میں جنرل عثمانی شامل نہیں۔ اس کی بجائے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ 12 اکتوبر 1999ءکے اس منصوبے پر عملدرآمد میں شامل تھے۔ کتاب میں لکھا ہے ابتدائی طور پر ڈی جی ایم آئی میجر جنرل احسان الحق نے مشرف کو متعدد مرتبہ یہ اطلاعات پہنچائیں کہ انہیں ممکنہ طور پر ہٹایا اور ان کی جگہ ضیاءالدین بٹ کو لگایا جا رہا ہے جس کے بعد مشرف نے تمام متعلقہ افسران (درج بالا) سے کہا وہ ضروری تیاریاں کر لیں۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے 12 اکتوبر سے پہلے ٹرپل ون بریگیڈ کو حکم دیا گیا تھا وہ اس غیرآئینی اقدام کیلئے تیار رہے۔ شاہد عزیز واقعات یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”اس سلسلے میں بریگیڈ ہیڈکوارٹرز نے اپنے یونٹس کو خطوط لکھے جو بعد میں مجھے دکھائے گئے جس کے بعد ایک ملاقات میں، میں نے مشرف سے کہا تحریری طور پر ہدایات کیوں جاری کی گئیں۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا ایسا اقدام پورے پلان کو بے نقاب کر سکتا ہے“۔ شاہد عزیز نے کہا 12 اکتوبر کو انہیں ایک ماتحت سے فون کال موصول ہوئی کہ پی ٹی وی دیکھیں اور آگاہ کیا وزیراعظم نواز شریف نے جنرل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ سن کر وہ فوراً اپنے دفتر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت دی وہ ان کا لیپ ٹاپ ان کے بھائی کے حوالے کر دے کیونکہ اس میں پورے منصوبے کی تفصیلات موجود تھیں۔ شاہد عزیز نے کہا انہوں نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں وہ نہیں چاہتے تھے اس کے متعلق کسی کو علم ہو۔ جیسے ہی شاہد عزیز اپنے ڈی جی ایم او کے دفتر پہنچے تو انہوں نے سی جی ایس جنرل عزیز کو فون کیا جنہوں نے انہیں بتایا جنرل محمود نے پہلے ہی ٹرپل ون بریگیڈ کو کارروائی کا اشارہ دیدیا ہے۔ جنرل عزیز خان نے انہیں بتایا وہ بذات خود کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل عثمانی سے بات کریں تاکہ جنرل مشرف کی سری لنکا سے کراچی واپسی محفوظ بنائی جا سکے۔ انہوں نے کہا جس وقت جنرل عزیز خان کو جنرل عثمانی سے بات کرنا تھی اس وقت انہوں نے جی او سی ملیر میجر جنرل افتخار خان سے رابطہ کیا اور انہیں کہا وہ فوراً ائرپورٹ جائیں اور اس کا کنٹرول سنبھال لیں۔ بریگیڈیئر جبار بھٹی جو اس وقت ملیر بریگیڈ کے بریگیڈ کمان تھے، سے بھی رابطہ کیا تاکہ پرویز مشرف کے جہاز کی پراطمینان انداز سے لینڈنگ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے بعد شاہد عزیز نے کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول بٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن معلوم ہوا وہ گالف کھیلنے گوجرانوالہ گئے ہوئے ہیں۔ اس پر انہوں نے جی او سی لاہور میجر جنرل طارق مجید (جنہیں بعد میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا گیا) سے رابطہ کیا اور انہیں ہدایت دی وہ کور کمانڈر لاہور کی جانب سے اقدام کرتے ہوئے معاملات پراطمینان انداز سے آگے بڑھنے کو یقینی بنائیں۔ جنرل مجید نے ایسا ہی کیا۔ شاہد عزیز کے مطابق کوئٹہ کے معاملے میں لیفٹیننٹ جنرل طارق پرویز قابل اعتماد آدمی نہیں تھے اور جب ان کے دو جی او سی سے رابطہ نہیں ہو پایا تو معلوم ہوا وہ اپنے کور کمانڈر کے ساتھ موجود ہیں۔ بعد میں بریگیڈ کمانڈر کوئٹہ بریگیڈیئر غضنفر (جنہیں بعد میں میجر جنرل بنایا گیا) سے رابطہ کیا گیا اور کہا گیا وہ بغاوت کے منصوبے کے مطابق عمل کریں۔ بریگیڈیئر غضنفر نے ویسا ہی کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا اس وقت کے کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل سعید الظفر کے معاملے میں جنرل مشرف کو پکا یقین نہیں تھا اور یہی وجہ ہے مشرف نے سری لنکا جانے سے قبل سعید الظفر کی تبدیلی پر غور کیا تھا لہٰذا شاہد عزیز نے جنرل عزیز سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا پشاور کو احکامات جاری کرنے سے گریز کیا جائے۔ حکمت عملی کے تحت ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کا گھیراﺅ ایک ٹیم نے کر لیا اور ایک ٹیم کو پی ٹی وی بھیج دیا گیا تاکہ اس کا بھی کنٹرول حاصل کر لیا جائے کیونکہ سرکاری ٹی وی مسلسل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف بنائے جانے کی خبریں نشر کررہا تھا۔ شاہد عزیز نے کہا جب وہ ڈی جی ایم او آفس سے احکامات جاری کر رہے تھے تو اس وقت ابتدائی طور پر جنرل عزیز خان ان کے ساتھ تھے لیکن بعد میں جنرل محمود اور میجر جنرل عارف حسن بھی آ گئے۔ بعد میں جنرل محمود اور جنرل عارف حسن وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کیلئے روانہ ہو گئے۔
شاہد عزیز

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...