ایک گمنام خضرِ راہ کے نام

گذشتہ کئی مہینوں سے جاری سیاسی سرگرمیوں پر لکھتے لکھتے اور پڑھتے پڑھتے طبیعت بوجھل ہوچکی ہے اس لئے آج میں موضوع سخن تبدیل کررہا ہوں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان گزارشات سے میں اپنے ذمے ایک دیرینہ قرض اتارنے کی کوشش کروں گا۔ میں آج اپنے استادِ گرامی عزیزالرحمن کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں جو گذشتہ دنوں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ والدین اور مخلص اساتذہ کے قرض اگرچہ کبھی نہیں اتارے جاسکتے مگر اپنے محسنوں کا ذکر خیر سعادت مند لوگوں کا اعزاز ہوا کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ جن عظیم و جلیل شخصیات سے جگمگارہی ہے ان میں سے ہر ایک کی تعلیم و تربیت کے پیچھے کسی نہ کسی ہستی کا خون جگر صرف ہوتا رہا ہے۔
 عرض مدعا یہ ہے کہ استاد اگر مخلص اور خدا رسیدہ ہو تو قدرت اس سے پیغمبرانہ مشن کی خدمت ضرور لیتی ہے۔ نیک دل استاد کی توجہ کا مرکز بننے والے لوگ زندگی میں ضرور نام پیدا کرتے ہیں خواہ وہ کسی بھی پسماندہ بستی میں ہی کیوں نہ رہتے ہوں۔ آج دنیائے اسلام بالعموم اور وطن عزیز میں بالخصوص علم حاصل کرنیوالوں کی تعداد گذشتہ سالوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے مگر سوسائٹی میں مہذب اقدار مسلسل کم ہورہی ہیں۔ اسکا سبب یہ ہے کہ عروج آدم خاکی کا راز محض علم سے مشروط نہیں بلکہ علم کے ساتھ صالح تربیت کا ہونا از بس ضروری ہے۔ ان سارے حقائق پر جب میں سوچتا ہوں تو مجھے میرا بچپن یاد آتا ہے۔ آج لاہور کی چکا چوند روشنیوں میں پلنے والے میرے بچوں کے مقابلے میں میرا بچپن کشمیر کے ایک دور دراز سرحدی گائوں میں تنگدستی، کسمپرسی اور نہایت سادگی میں گزرا ہوا بچپن تھا مگر مجھے اس پر ہمیشہ رشک آتا ہے۔ اسکی صرف ایک وجہ تھی کہ مجھے بچپن میں ایک شفیق استاد میر عزیزالرحمنؒ کی آغوش تربیت میسر آگئی۔ جنہوں نے چار پانچ سال کی عمر میں میری انگلی پکڑی، مجھے پہلی مرتبہ اپنے ساتھ سکول لے گئے اور اپنی جیب سے مجھے قاعدہ خرید کردیا اور خود پڑھانا شروع کیا۔ قاعدے سے لیکر مڈل تک میں اسی سادہ سے سکول میں پڑھتا رہا۔ ابتدائی پانچ سال تو بلاشرکت غیرے میرے وہی ایک استاد رہے کیونکہ پرائمری سکول میں اس وقت صرف ایک استاد ہوتا تھا لیکن کیا مجال کہ کسی بچے کی تعلیم و تربیت میں کمی آئی ہو۔ ہم نے نماز بھی انہی سے سیکھی، قرآن بھی انہی سے پڑھا اور تلاوت کے ذوق کے ساتھ نماز کی پابندی کی عادت بھی اللہ کی توفیق سے اسی عمر میں پختہ کرلی۔ مجھے اللہ پاک نے وطن عزیز کی عظیم ترین دانشگاہ جامعہ پنجاب سے لیکر عالم اسلام کی قدیم اور عظیم مادر علمی جامعہ ازہر تک پڑھنے کا موقع دیا۔ میں نے بہت سے دینی مدارس اور وہاں پڑھانے والے جلیل القدر اساتذہ کرام کی صحبتوں سے استفادہ کیا مگر استاد کے تقدس کا جو نقش میرے ذہن میں اس دور میں پختہ ہوا وہ کسی بڑی سے بڑی علمی فکری اور روحانی شخصیت کی معیت میں بھی نہیں ابھر سکا۔ استاد گرامی نے مجھے پورے آٹھ سالہ دور طالب علمی میں صرف ایک مرتبہ تیسری جماعت میں سزا دی تھی اور اس کی نوبت اس لئے آئی تھی کہ میں نے اس دن جلدی کے باعث تختی پر خوشخطی لکھنے میں کور زوقی کا مظاہرہ کیا تھا۔ میں آج ایک یونیورسٹی کے شعبے کا صدر نشین ہوں اور میرے پاس ملک بھر کی تعلیم گاہوں سے فارغ التحصیل لوگ آتے ہیں۔ میں جب انکی بے ڈھبی ہینڈرائٹنگ پڑھتا ہوں تو افسوس کی ایک لہر دماغ سے نکل کر دل سے پار ہوجاتی ہے کہ کاش ان لوگوں کو بھی بچپن میں کسی استاد نے خوشخطی میں سستی پر سزا دی ہوتی۔ جب بھی میں لاہور کے پوش گھرانوں کے بگڑے ہوئے بچوں اور انہیں تعلیم بچینے والے بے عمل سوداگروں کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ کاش آج بھی کوئی عزیزالرحمن ہوتا جو سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو سادہ سے دو کمروں کے سکول میں علم، ادب  اور تربیت کے مشکل مرحلوں سے گزارتا اور انہیں معاشرے کیلئے جوہر قابل بناتا۔ مجھے ملک اور بیرون ملک بہت سے سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شریک ہونے اور وہاں تعلیم و تدریس کے موضوع پر بولنے اور سننے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ وسائل اور دولت کے انباروں میں مگر ایک چیز ہمیشہ مفقود پاتا ہوں اور وہ ہے استاد کا اخلاص اور تربیت کا جذبہ۔ میں آج سینکڑوں ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے مہنگے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار پڑھتا ہوں اور ان میں تربیت یافتہ نیک بچوں کی شرح دیکھتا ہوں تو اپنا وہی ہندوئوں کے زمانے کا بنا ہوا دو کمروں کا سکول یاد آجاتا ہے جہاں ایک شخص کی موجودگی خوف ادب اور سنجیدگی کی ضمانت ہوتی تھی۔ میرے یہ استاد مرحوم مقبوضہ کشمیر کے خوبصورت خطے لولاب سے 1947ء میں ہجرت کرکے آزاد کشمیر آئے تھے، ان کی دین دوستی اور نیکی سے رغبت بلاشبہ ان کے والدین کی دین دوستی کا مظہر تھا جنہیں وہ اکثر یاد کرکے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ میں جب بھی گھر جاتا انہیں ملتا تو وہ مل کر بہت خوش ہوتے۔ ان کی آنکھیں خوشی اور مسرت سے ڈبڈبا جاتیں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیتے۔ ان کی عمر 90 سال سے زیادہ تھی مگر اس سال بھی انہوں نے بیماری اور نقاہت کے باوجود پورے روزے رکھے، تراویح پڑھی اور تہجد کے علاوہ چاشت نماز کی پابندی جاری رکھی۔ آخری عمر میں انہیں نیک خصلت بیٹے اور جواں سال تعلیم یافتہ پوتے کی بے وقت موت کا صدمہ سہنا پڑا مگر صبر بھی ان کے کردار کی خوبصورتی تھا۔ ان کے دم قدم سے کشمیر میں ہمارا گائوں ’’پاھل‘‘ پورے علاقے کے لئے ایک مثالی گائوں کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ ان کی تعلیم و تربیت سے فیض پاکر ملک اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کے بیٹے اور میرے ہمدم فاروق میر آج کل برطانیہ کے شہر نوٹنگھم میں ایک تعلیمی ادارہ چلارہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک میرے اس گمنام خضرِ راہ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہمارے ملک کے اساتذہ کو اسی طرح کی سیرت و کردار کی نعمت سے نوازے۔

ای پیپر دی نیشن