آج میں دو ایشوز پر بات کرنا چاہوں گا۔
(اولاً) پنجاب بھر میں اسلحہ کی نمائش کیخلاف سخت قانونی کارروائی کا آغاز۔ (دوئم) وزیراعظم نواز شریف نے ہدایت کی ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی اور بلوں میں زائد رقم ایڈجسٹ کی جائے۔
حکومت پنجاب گزشتہ چند روز سے بذریعہ اشتہارات متنبہ کر رہی ہے کہ پنجاب کے باسی سرعام اسلحہ لیکر چلنے پھرنے سے گریز کریں۔ ہمارے ہاں عام شہریوں کو بھی اسلحہ / ہتھیار رکھنے کا حق دیدیا گیا ہے اپنی حفاظت کرنے کے تصور کے پیش نظر‘ مگر ہم نے اس قانونی چھوٹ سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے شہروں کے 80 فیصد گھروں میں حفاظت کے نام پر اسلحہ رکھا گیا ہے۔ اس وقت ہماری سوسائٹی میں دو قسم کا اسلحہ گردش کر رہا ہے‘ لائسنسی اور غیر لائسنسی۔ لائسنسی اسلحہ اکثر ان لوگوں اور گھرانوں کے پاس ہے جو قانون کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ناجائز اسلحہ رکھنے کو خلاف قانون سمجھتے ہیں۔ اسلحہ رکھنے والے لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جن کے پاس غیرلائسنسی اسلحہ ہے۔ یہ کون لوگ ہیں‘ ہماری سوسائٹی ان لوگوں‘ افراد اور گھرانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتیں۔ قانون بھی ان کا تعاقب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لائسنسی اسلحہ رکھنے والوں میں اکثریت اشرافیہ کی ہے۔ تقریباً ہر بڑا ڈاکٹر‘ وکیل‘ سرمایہ دار‘ سیاستدان ‘ مذہبی سکالر اور کاروباری شخص کے پاس لائسنسی اسلحہ اور مسلح سکیورٹی گارڈز ہیں۔ قانون انہیں بوقت ضرورت اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے‘ لیکن کہتے ہیں نا کہ شیطانی چیز شریف کے ہاتھ میں ہو یا بدمعاش کے ہاتھ میں‘ شیطان ہی کہلوائے گی اور شیطانی چیز سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ شہروں کا اندرونی پوریشن ہو یا بیرونی‘ اکثر مکانوں کی چھتوں پر سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ بلاوجہ اندھا دھند فائرنگ کرنے والے یہ کون لوگ ہوتے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر فائرنگ کرتے ہیں۔ (اولاً) وہ لوگ جو اپنی دو نمبریاں چھپانے کیلئے ہمسایوں پر اپنی دہشت بٹھانا چاہتے ہیں‘ (دوئم) وہ لوگ جو بلاوجہ فائرنگ کرکے علاقے کے چوروں اور ڈاکوئوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلح ہیں‘ شاید چور ڈاکو ادھر کا رخ نہ کریں۔شادی و دیگر خوشی کی تقریبات میں ہوائی فائرنگ کرنا ہمارا مسئلہ بن چکا ہے۔ انتخابات کے نتیجہ میں جیتنے والی پارٹی کے منچلے کارکن اندھادھند ہوائی فائرنگ کرتے ہیں۔ قانون بھی انہیں روکنے کی جرأت نہیں کرتا۔ میں یہ بات بیانگ دہل کہنے کو تیار ہوں کہ مسلح محافظوں کے ساتھ موومنٹ کرنے والے بڑے لوگ محض شو کیلئے مسلح محافظوں کے حصار میں گھومتے پھرتے ہیں۔ نوعمر بیروزگار نوجوانوں کی جیبوں میں سے کچھ اور نکلے نہ نکلے ایک ٹی ٹی پستول ضرور نکلتا ہے جسے دکھا کر وارداتیں کرتے ہیں اور یقینا پستول غیرلائسنسی ہوتا ہے۔ دوسری بات وزیراعظم نواز شریف نے بھول پن میں سہی‘ یہ ہدایت تو کر دی کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور بلوں میں زائد رقم ایڈجسٹ کی جائے‘ لیکن لگتا ہے کہ نوازشریف تمام تر حقائق سے آگاہ نہیں۔ اگر انہیں حقائق کا پتہ ہوتا تو شاید وہ ایسی ہدایت کبھی جاری نہ کرتے کیونکہ جنہیں وہ بجلی چوری رکوانے کی تلقین اور ہدایت کر رہے ہیں‘ وہ تو خود بڑے بجلی چور اور بجلی چوروں کے محافظ و ساتھی ہیں۔ میرا یقین ہے کہ جب تک محکمہ بجلی سے وابستہ افسران و سٹاف نہیں چاہے گا بجلی چوری کو روکا نہیں جا سکتا کیونکہ انہیں ہر اس گھر‘ فیکٹری‘ مل اور کارخانے کا پتہ ہے جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے۔ یہاں یہ بات تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بجلی کی آئے دن بڑھائی جانے والی قیمتوں نے عام آدمی اور سفید پوش طبقے کو بھی چور بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص 17/18 ہزار روپے بجلی کا بل کیونکر ادا کر سکتا ہے۔ وہ چوری نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ خواجہ آصف‘ عابد شیر علی و دیگر مقتدر حضرات سوچ نہیں سکتے کہ بجلی کا بل آنے پر سفید پوش اور متوسط گھرانے پر کیا بیتتی ہے۔ لوڈشیڈنگ تو ایک عذاب ہے ہی‘ بھاری بھرکم بلوں نے سونے پہ سہاگہ کا کام کرکے غریب‘ متوسط و ایماندار طبقات سے جینے اور کھانے پینے کا حق ہی چھین لی ہے۔ ہم آسانی سے میٹر ریڈروں کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں‘ یقینا میٹر ریڈرز ہی بجلی چوری کروانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں مگر ایس ای‘ ایکسین اور ایس ڈی او سب کے سب اس کالے دھندے میں شریک ہیں۔ میٹر ریڈر کو تحفظ اس کی یونین دیتی ہے جبکہ افسر ان کی نوکریوں کی حفاظت بڑی سیٹوں پر بیٹھی ہوئی بلائیں کرتی ہیں۔عمران خان اور طاہرالقادری بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور جوق در جوق شرکت کر رہے ہیں۔ وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بجلی کی قیمتیں‘ لوڈشیڈنگ اور بیروزگاری ہے۔ چلتے چلتے اتنا کہہ دوں قدم اٹھانے سے بجلی چوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔(اولاً) بجلی چوری کروانے والوں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔(دوئم) بجلی بنانے والی کمپنیوں کو فری ہینڈز دیا جائے اور انہیں کینڈے میں لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ بجلی بنانے والی کمپنیاں بے لگام گھوڑے بن چکی ہیں۔(سوئم) جتنی جلدی ممکن ہو بجلی کی قیمتوں کو کم کیا جائے۔