اِذا زُلزِلت ِالاَرضُ زِلزَالَھاَ ”جب زمین پوری طرح جھنجوڑ دی جائے گی“۔ کچھ ایسا ہی نقشہ بتاتے ہیں بتانے والے۔ امریکہ میں نصف شب تھی، علم ہی نہ ہو سکا کہ وطن عزیز کا خطہ زلزلے کی لپیٹ میں ہے۔ صبح اٹھے اور حسب معمول دھڑکتے دل کے ساتھ ٹی وی کھولا کہ وطن سے خیر کی خبریں شاذو نادر سننے کو ملتی ہیں۔ جس کا گھر سلامت ہے اس کے لئے سب جگ سلامت ہے۔ خاندان کی خیریت معلوم ہو جائے تو باقی خبریں سننے کا ہوش قائم رہ سکتا ہے ورنہ خبر تو اپنے پیارے کی ہوتی ہے باقی سب اطلاع ہوتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ زلزلہ کے جو حالات بتائے جا رہے ہیں، ایسا لگ رہاہے جیسے قیامت کا معمولی ٹریلر دکھایا گیا۔ پہاڑ لرزتے رہے، عمارتیں جھولتی رہیں، زمین ہچکولے کھاتی رہی، دنیاکپکپاتی رہی، خواتین اور بچے چلاتے رہے، جن کے بچے سکولوں میں تھے، وہ مائیں بد حواس ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں۔ زلزلے کے جھٹکے بظاہر ایک منٹ تک جاری رہے مگر یوں لگ رہا تھا جیسے سب کچھ زمین بوس ہو جائے گا۔ زمین پھٹ جائے گی اور لوگ زندہ دفن ہو جائیں گے۔ کلمہ اور استغفار کا ورد جاری رہا اور جاری رہنا چاہئے کہ پیشگوئی کے مطابق زلزلے کے خطرات مکمل طور پر ٹلے نہیں، آفٹر شاکس کی بری خبریں آ رہی ہیں۔ انسان جب کسی بڑے سانحہ سے دوچار ہوتا ہے تو اس وقت اسے کچھ سمجھ نہیں آتی لیکن آفر شاک یا آفٹر ٹروما وقت اس سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا ہے۔ سانحات کو سمجھنے اور محسوس کرنے کے لئے ذہن و دل کو وقت درکار ہوتا ہے اور جب سمجھ آنے لگتی ہے تو اس سے انسانی جسم بھی متاثر ہونے لگتا ہے۔ کسی جانی نقصان کی صورت میں اکثر کہتی ہوں کہ جسم کازخم تو وقت کے ساتھ بھر جائے گا لیکن روح کا زخم وقت کے ساتھ گہرا ہو گا۔ انسان کو قدرتی آفات سے خوف مالی نقصان کا نہیں بلکہ جانی نقصان کا ہوتا ہے۔ زلزلہ کے دوران بڑے بڑے شاپنگ پلازے اور اربوں کمانے والے دفاتر لمحوں میں خالی ہو گئے۔ چند جھٹکوں سے ایسے اوسان خطا ہوئے کہ اپنے کاروبار چھوڑ کر باہر سڑکوں پر جا بیٹھے۔ جان سے بھی پیاری شے اولاد ہے، زلزلہ کے دوران والدین اپنے بچوں کو گھسیٹ کر عمارتوں سے باہر نکال رہے تھے اور خوف کے مارے شاید مزید کئی راتیں نہ سو پائیں۔ جان، مال، اولاد آزمائش ہیں مگر یہ کمزور انسان اپنی اولاد کی خاطر زیادہ سے زیادہ مال بنانے کے چکر میں اپنی جان کو مشکل میں ڈالے رکھتا ہے۔ جس زمین پر اترا کر چلتا ہے خالق کے ایک جھٹکے کی مار نہیں۔ زلزلے کے وقت پرندے شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور گھونسلوں سے اڑ جاتے ہیں۔ جانوروں کو اتنی عقل ہے تو انسان نام ہی شعور کا ہے، زلزلے کے جھٹکوں میں وہ اپنے محل چھوڑ دیتا ہے۔ جس زمین پر فساد پھیلاتا ہے اسی زمین پر پٹخنیاں دے کر مارا جاتا ہے۔ ایک شخص نے کہا ”زلزلہ کا آخری جھٹکا بہت شدید تھا“۔ سچ کہا آخری جھٹکا ہی تو شدید ہوتا ہے۔ ساٹھ ستر اسی نوے سال کے دوران کئی جھٹکے کھاتاہے مگر پلٹنے میں تاخیر کردیتاہے بلکہ کئی غافل تو پلٹنے کو تحقیر کا نشانہ بناتے بناتے مر جاتے ہیں۔ زمین پر اکڑ کر چلنے والا جب اپنی اوقات فراموش کردیتاہے تو اس کا آخری جھٹکا نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ توبہ کی توفیق سلب کر لی جاتی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ پیشگوئی فرما گئے ہیں کہ ”جب مال ِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے، امانت غنیمت سمجھ کر دبا لی جائے، زکوٰة کو تاوان سمجھاجانے لگے، دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے، مرد بیوی کی اطاعت کرنے لگے، ماں کو ستائے، دوست کو قریب کرے اور باپ کو دور کرے، مساجد میں دنیا کی باتیں ہونے لگیں، قبیلے کے سردار بد ترین لوگ بن جائیں، کمینے لوگ قوم کے ذمہ دار ہو جائیں، انسان کی عزت اس کے شر کے خوف سے کی جانے لگے، گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائے، شراب عام ہو جائے، بعد میں آنے والے امت کے پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں، تو اس زمانے میں آندھیوں، زلزلوں اور زمین کے دھنس جانے، صورتیں مسخ ہو جانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری نشانیوں کا بھی انتظار کرو جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور پے در پے دانے گرنے لگیں۔ (ترمذی شریف) سورة زلزال میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”جب زمین اپنے سخت بھونچال سے بڑی شدت کے ساتھ تھر تھرا جائے گی۔ اور زمین اپنے سب بوجھ باہر نکال پھینکے گی۔ اور انسان حیران و ششدر ہو کر کہے گا ’اسے کیا ہو گیا ہے۔ اس دن وہ اپنے حالات خود ظاہر کر دے گی۔ اس لئے کہ آپ کے رب نے اس کے لیئے تیز اشاروں کی زبان کو مسخر فرما دیا ہو گا۔ اس دن لوگ مختلف گروہ بن کر نکلیں گے تا کہ ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرا بھر برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا“۔