اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیٹ نیوز + ایجنسیاں) مودی حکومت کی بدحواسیاں جاری ہیں، بھارت نے پاکستان کے ساتھ فوجی کے بعد اب سفارتی کشیدگی میں یکدم اضافہ کردیا ہے۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن کے ویزا افسر محمود اختر کو گرفتار کرکے ان سے بدسلوکی کی گئی۔ بعدازاں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو وزارت خارجہ طلب کر کے آگاہ کیا گیا کہ محمود اختر کو بھارت نے ناپسندیدہ شخص قرار دے کر 29 اکتوبر تک بھارت سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان کے ہائی کمشنر نے بھارتی خارجہ سیکرٹری کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے دوران محمود اختر کی گرفتاری ا ور بدسلوکی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے بھارتی اقدامات کو ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بھارتی حکومت ان واقعات کی روک تھام کو یقینی بنائے۔ انہوں نے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہائی کمشن سفارتی آداب کے منافی کسی سرگرمی میں ملوث نہیں۔ بی بی سی کے مطابق دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے ایک سینئر افسر روندر یادو نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ پاکستانی اہلکار محمود اختر کوبدھ کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا گیا تھا چند گھنٹے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔ پولیس افسر نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سفارتی افسر کو اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب انہیں راجستھان کے دو مقامی افراد دہلی کے چڑیا گھر کے علاقے میں سرحدی علاقوں میں فوج کی تعیناتی اور سرگرمی سے متعلق بعض دستاویزات دے رہے تھے۔ پولیس افسر کا دعویٰ ہے کہ ابتدائی پوچھ گچھ کے دوران محمود اختر نے بتایا کہ ان کا تعلق پرانی دہلی میں لال کنویں کے علاقے سے ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے بعض بھارتی شناختی دستاویزات بھی پیش کیں لیکن مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی شہری ہیں۔ روندر یادو کے مطابق پھر وزارت خارجہ کے افسروں سے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ پاکستانی ہائی کمشن میں تعینات ہیں اور انہیں سفارتی استثنیٰ حاصل ہے جس کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ پاکستان نے نئی دہلی میں پاکستان کے سفارتی افسر کی گرفتاری اور ناپسندیدہ شخصیت قرار دینے کے بھارتی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی رویہ ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت ایسے اقدامات کرکے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن کی سفارتی ذمہ داریاں محدود کرنا چاہتا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے سفارت کار کی ملک بدری کے فیصلے سے آگاہ کیا، بھارت نے میڈیا کو بھی منفی اور من گھڑت پراپیگنڈا کیلئے استعمال کیا، پاکستانی سفارت کار کو جھوٹے اورلغو الزامات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا جنہیں تین گھنٹے بعد پاکستانی ہائی کمشن کی کوششوں کے باعث رہا کر دیا گیا۔ بھارتی الزامات کے مسترد کرتے ہیں پاکستانی ہائی کمشن بین الاقوامی قوانین اور سفاگرتی آداب کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ بھارت کی تنائو بڑھانے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ عالمی برادری سے بھارتی منصوبوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا کا کہنا ہے کہ کوئیہ دہشت گرد حملے کے دوران دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے، افغان حکومت سے بار بار کہا ہے کہ اسے روکا جائے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اور سابق امریکی وزیر دفاع بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں کرتا ہے، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد دہشت گردی کے کئی نیب ورکس بھی پکڑے گئے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق بھارتی پولیس کے جائنٹ کمشنر کرائمز نے پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا کہ پاکستانی اہلکار اڑھائی سال سے آئی ایس آئی کے لئے رقم کے بدلے جاسوسی کی خاطر بھارتیوں کو بھرتی کر رہے تھے۔ روندر یادیو نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی ہائی کمشن میں جاسوسی کا مرکز توڑ دیا گیا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ محمود اختر مہینے میں ایک بار طے شدہ مقام پر دستاویزات اور رقوم کے تبادلے کے لئے ملتے تھے۔ راجستھان سے تعلق رکھنے والے دو افراد بھی گرفتار کئے گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ محمود اختر کے پاس بی ایس ایف کی تعیناتی کے حوالے سے نقشے تھے اس کے علاوہ تعینات فوجیوں کی فہرست بھی تھی۔ ترجمان بھارتی وزارت خارجہ وکاس سوارپ پاکستانی ہائی کمشنر کی طلبی کے حوالے سے جھوٹی داستان بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا ایک اہلکار جاسوسی کے الزام میں پکڑا گیا۔ پاکستانی اہلکار کو بھارتی جاسوسوں سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ محمود اختر نے بتایا کہ وہ 1997ء میں بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوا۔ پاکستانی ہائی کمشنر سے کہا ہے کوئی اہلکار بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث نہ ہو۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کا خیرمقدم کریں گے۔ کانفرنس میں شرکت سے متعلق پاکستان کی باضابطہ تصدیق ابھی نہیں ہوئی۔ تمام ممالک کا خیرمقدم کریں گے کیونکہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ دریں اثناء بھارتی پولیس نے ایک اور پاکستانی کو پکڑنے کا دعویٰ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق شعیب نامی شخص کو راجستھان پولیس نے جاسوسی کے الزام میں پکڑا ہے۔
بھارت/ پاکستانی اہلکار
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے ایک سفارت کار سرجیت سنگھ کو جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے پاکستان میں متعین بھارت کے ہائی کمشنر گوتم بمباوالے کو طلب کرکے انہیں اس فیصلے سے آگاہ کیا اور بھارتی سفارت کار کی اس کے منصب اور ویانا کنونشن کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ بھارتی ہائی کمشنر سے کہا گیا کہ وہ سرجیت سنگھ اور اس کے خاندان کو 29 اکتوبر تک پاکستان سے نکالنے کیلئے فوری بندوبست کریں۔ ذرائع کے مطابق سرجیت سنگھ بھارتی سفارت خانے میں پریس اتاشی تھا جو اس منصب کی آڑ میں جاسوسی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ سرجیت سنگھ مشرقی پنجاب کا سکھ تھا جس نے بھارتی سفارتخانہ کی سابق خاتون پریس اتاشی مادھوری گپتا کی جگہ لی تھی جسے پاکستان کیلئے جاسوسی کرنے کے الزام کے تحت نئی دہلی واپس بلا لیا گیا تھا۔ پاکستانی اہلکار سے بدسلوکی پر پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھارت سے احتجاج کیا تھا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں لحاظ کرتے ہوئے بھارتی سفارتکار کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی بلکہ اسے ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان نے بھارتی ہائی کمشنر سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بلااشتعال فائرنگ پر احتجاج کیا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کی گوتم بمبانوالے سے دس منٹ تک ملاقات جاری رہی۔ اعزاز چودھری نے پاکستانی ہائی کمشن کے عملے کو ہراساں کرنے پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عملے کو ہراساں کرنا ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ سرجیت سنگھ کو 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سرجیت سنگھ سے متعلق حکم بھارتی ہائی کمشنر کے حوالے کیا گیا اور کہا گیا کہ بھارتی سفارتی اہلکار کی سرگرمیوں پر سخت تشویش ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستانی سفارتی اہلکار محمود اختر کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا ہے جیسا سلوک بھارت کرے گا ویسا ہی سلوک بھارت کو پاکستان میں ملے گا۔