افغانستان کو دوسرا بھارت بنانے کی کوششیں

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے حالیہ بھارت کے دورے کے دوران پاکستان کے خلاف جی بھر کے زہر اُگلا ہے بلکہ پاکستان پر یہ شرط بھی عائد کردی ہے کہ اگر افغانستان سے اقتصادی راہداری گزارنا ہے تو بھارت کو پاکستان کے راستے وہاں تک رسائی دی جائے ورنہ ہم یہ راستہ افغانستان سے نہیں گزرنے دیں گے۔ گویا اس وقت پاکستان کو دونوں طرف سے بھارت ہی کا سامنا ہے۔ افغانستان جسے ہم اپنا برادر اسلامی ملک گردانتے ہیں اور جس کے تیس لاکھ مہاجرین گزشتہ تیس برس سے پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اسی ’’برادر‘‘ ملک نے اپنے محسن کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ پاکستان، بھارت نمبر ایک اور بھارت نمبر2کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے جسے امریکہ مزے لے لے کر کھانا چاہتا ہے لیکن یہ احمق اور ناعاقبت اندیش لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کوئی تر نوالا نہیں جسے جو چاہے، ہاتھ بڑھا کر منہ میں ڈال لے۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جسے ہاتھ لگانے سے پہلے سو بار نہیں، ہزار بار سوچنا پڑے گا۔ اشرف غنی کی تو حیثیت ہی کیا ہے، اپنی کیاپدی اور کیا پدی کا شوربہ… پاکستان سے تو امریکہ ایسی سپر پاور بھی خائف ہے اور بھارت جیسے ایٹمی حریف کے ہاتھ پائوں بھی کانپنے لگتے ہیں۔ سی پیک منصوبے کی صرف بھارت ہی کو نہیں، امریکہ کو بھی بہت تکلیف ہے جو کہ اب کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے بہ زبان خود سی پیک پر امریکہ تحفظات کا برملا اظہار کیا ہے۔ افغانی صدر اشرف غنی کو شرم آنی چاہئے کہ پاکستان کو ایک کافر اور بدعہد اور اسلام دشمن ملک، بھارت کیلئے ہدف تنقید بنا رہے ہیں، کیا وہ بھارت کی فطرت سے واقف نہیں؟ ہندو وہ قوم ہے جو کام نکالنے کیلئے گدھے اور سؤر کو بھی اپنا باپ بنا لیتی ہے اور کام نکل جانے کے بعد اپنے محسن ہی کا گلا کاٹ دیتی ہے۔ اشرف غنی پاکستان کے اُن بے پایاں احسانات کو بھول گئے ہیں جو ہم نے افغانستان پر کئے روسی فوج کی بربریت اور تسلط سے افغانستان کو نجات دلانے والا پاکستان کے علاوہ کون تھا؟ اور پھر لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ کس نے دی اور آج تک ان کا بوجھ کون اٹھا رہا ہے؟ اب اگر پاکستان کہتا ہے کہ مہاجرین کو واپس لے جائو تو افغان حکومت اس پر بھی راضی نہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن قائم کرنا چاہتا ہے لیکن افغان حکومت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگا رہی ہے اور اقتصادی راہداری میں بھارت کو راستہ دینے کی شرط ! چہ معنی دارد؟

امریکی وزیر خارجہ بھاگم بھاگ پاکستان آئے اور پاکستانی حکومت نے بھی ان کا استقبال بہت سرد اور بجھے ہوئے انداز میں کیا۔ اچھا کیا، اب یہ ملک اسی قابل ہے، امریکہ کو دراصل پرویز مشرف نے سرپر چڑھا رکھا تھا اور اب امریکہ پاکستان سے یوں پیش آ رہا تھا جیسے آقا اپنے غلام کے ساتھ پیش آتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے امریکی عہدیدار کی آمد پر پاکستان کا وزیراعظم، صدر، آرمی چیف اور پوری سینٹ اور کیبنٹ بھاگی جا رہی ہوتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں امریکہ کو اس کی اوقات یاد دلانے میں بھی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی یہ کی کہ امریکہ پر انحصار کم نہیں، ختم کیا جائے۔ دیگر دوست ملکوں یعنی چین، ترکی، ایران، روس وغیرہ سے مراسم بڑھاتے جائیں اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھایا جائے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن کو گھاس نہیں ڈالی۔ وہ صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن ہماری حکومت نے انہیں ایک مشترکہ اجلاس میں شرکت کیلئے مجبور کیا اور اسے یہ بات ماننا پڑی۔ ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے دو ٹوک الفاظ میں امریکہ کو بتا دیا ہے کہ ہمیں نہ اسلحہ چاہئے نہ امداد… ہمیں عزت و آبرو چاہئے۔ لہٰذا آئندہ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات ہو گی میں سمجھتا ہوں جو قوم اپنی عزت کروانا جانتی ہے، دنیا اسی کی عزت کرتی ہے۔ ورنہ کاسۂ گدائی بھی ہم نے اٹھا کے دیکھ لیا۔ ہر طرف سے ذلت و رسوائی کے سوا ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ امریکہ مسلسل ’’ڈومور‘‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہے لیکن اب پوری پاکستانی قوم کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ’’نومور‘‘۔اشرف غنی کی طرف سے شرائط عائد کرنے کے بعد پاکستانی اور چینی ماہرین کو چاہئے کہ وہ راہداری کے نقشے میں کچھ ایسی تبدیلی کریں کہ افغانستان کو بھی اس راہداری سے نکال باہر کیا جائے اور بھارت کو راستہ دینے کی نوبت ہی نہ آ سکے۔ پوری راہداری پاکستانی راستوں ہی سے ہوتی ہوئی ایران اور وسط ایشیائی ممالک تک پہنچ جائے۔ پھر افغانستان بیٹھا بغلیں بجاتا رہے اور دوسری طرف بھارت آنسو بہاتا رہے۔ پاکستان کیلئے مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر تاریخی ہے ۔ ؎
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

ای پیپر دی نیشن