لاہو رمیں ایک شخص ہوا کر تا تھا"موسٰی آھنگر" جو روئی کاتنے والے چرخوں کے تکلے بنایا کر تا تھا اب لوگوں کوچرخوں کا ہی علم نہیں تو تکلوں کا کیا ہو گا۔ روئی سے دھاگہ بنانے کے لیے ایک ہاتھ سے چرخا چلاتے ہیں اور روئی کا گولہ دوسرے ہاتھ میں تھام کر اسے لوہے کی ایک پتلی سلاخ جیسے برف توڑنے والا" سوا" ہوتا ہے پرلپیٹتے جاتے ہیں اب تو شائد لوگوں کو سوئے کا بھی علم نہ ہو ورنہ بھلے زمانوں میں یہ جدید اسلحہ کی بجائے آلہ قتل کے طور پر استعمال ہوتا تھا سوئے کی" شرافت" یہ تھی کہ ایک وقت میں یہ ایک ہی آدمی کو قتل کرتا تھا نہ کہ کلاشنکوف وغیرہ کی طرح لاشوں کے ڈھیرے لگا دیتا تھا ۔ مزید معلومات اگر درکا ہوں تو "گاندھی" نامی فلم میں گاندھی کو چرخہ چلاتے ہوئے اور تکلے پر روئی کاتتے ہوئے دیکھ لیں۔ موسی آہن گر ایک چھوٹی سی دوکان پر چرخوں کے تکلے بناتا تھا ۔ لاہور میں موسی کی یہ دوکان کس جگہ واقع تھی اور یہ اس زمانے میں لاہور میںکہاں رہا کرتا تھا ۔ اس کی مصدقہ اطلاع ہمارے محترم مستنصر حسین تارڑ سے مل سکتی ہے ایسے کردار تلاش کرنا اور انہیں اپنے قا رئین تک پہنچانا کوئی ان سے سکیھے انہوں نے تو شرقپور میں سعید نامی ایک شخص کو بھی دریافت کر لیا تھا جس نے بابل کی تہدیب کی بربادی کے بعد آج تک کسی تہذ یب کو" مہذب " گردانا ہی نہیں ۔ خیر ذکر کر رہا تھاموسٰی آھنگرکا تو ایک روز ایک انتہائی خوبصورت ، متناسب اعضا بڑی بڑی آنکھوں او رگہری دار زلفوں کی مالک ایک ہندوعورت ان سے اپنے چرخے کے لیے تکلا بنوانے آئی ۔ موسی جب تک آگ کی بھٹی میں تکلے کی سلاخ کو گرم کر کے سرخ کرتا رہا تب تک وہ اس انہاک سے اس عورت کو مسلسل دیکھتا رہا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ سلاخ کب گرم ہو گئی ہے۔ اس عورت نے موسی کا اس طرح اسے دیکھنا بد نظری پر محمول کیا اور اسے سخت سست کہا کہ شرم نہیں آتی اپنا کام کرنے کی بجائے مجھی پر نظر جمائے بیٹھے ہو یہ سن کر موسی نے جواب دیا کہ اگر میں نے تمہیں گناہ کی نظر سے دیکھا ہو تو میں تکلے کی یہ گرم سلا خ اپنی آنکھوں میں پھیرتا ہوں آنکھیں اگر جل گئیں تو میں گنا ہ گار ہوں گا اور یہ میری سزا ہو گی اگر آنکھیں سلامت رہیں تو میر ی کوئی تقصیرنہ ہو گی یہ کہہ کر موسیٰ نے آگ میں د ہکتے تکلے کو نکال کر اپنی آنکھوں میں پھیر لیا اور اس کی دونوں آنکھیں سلامت رہیں۔ یہ دیکھ کر وہ عورت حیران رہ گئی اور مسلمان ہو کر ساری عمر موسیٰ آھنگر کی خدمت میں گزاردی۔ معلوم تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ موسی کسی علاقے سے لاہور میںا ٓیا تھا تاہم’’میاں محمد شریف‘‘کے بارے میںسب کو معلوم ہے کہ وہ تقسیم کے موقع پر امرتسرکے ایک پسماندہ نواحی گائوں جاتی امرا سے لاہور میں آئے اور برانڈرتھ روڈ کی ا یک قریبی گلی میں قیام کیا یہاں ان کیساتھ ان کا پورا خاندان ایک چھوٹے سے مکان میںمقیم رہا کوئی عورت ان سے تکلہ تو نہ بنوانے آئی مگر ان کی آنکھ ایسی حکیما نہ تھی کہ آنے والے کئی سالہ دور کی تصویر دیکھ سکتی تھی۔ یہ بصارت ان کے بڑے کام آئی ۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اب انگریز حکومت کو جنگی ضرورت کا سامان مہیا کر کے کوئی گوجرانوالہ کا سیٹھ عبدا للہ یا حاجی پیر بخش کھوکھر تو نہیں بن سکتا البتہ اگر سب بھائی مل کر کوئی چھوٹا موٹا کارخانہ بنا لیں ۔ تو شائد اللہ تعالی برکت ڈال دے لہذا اس فارمولے پر انہوں نے عمل کیا اور" اتفاق فا ئونڈری "کے نام سے اس کی ابتدا کر ڈالی۔ اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ اللہ نے ہاتھ تھام لیا۔ اور انہوں نے کاروبار کے" سبھی گر" خوب اچھی طرح استعمال کر کے ایک مضبوط فائونڈری بنا ڈالی۔ برانڈ رتھ روڈ سے بھی اٹھ کر گوالمنڈی اور پھر ماڈل ٹاون میں خوبصورت او ر وسیع گھر بنائے ۔ کاروبار چل رہا تھا ۔ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 72ء میں سکولوں ، کالجوں ، بنکوں ، انشورنس کمپنیوں اور کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ بڑے میاں صاحب نے اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ۔ کے فارمولے پر عمل کیاکچھ میاں اظہر(سابق گورنر پنجاب) کے والد جیسے دوست احباب بھی کام آئے اور کاروبارزندگی پھر سے چلنا شروع ہو گیا ۔ لاکھوں بلکہ کروڑں روپے کمائے اربوں کا ہندسہ ابھی فیکٹری کے گوشواروں وغیرہ سے نا آشنا تھا ۔"پرانے گر" پھر سے استعمال کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سال گزر گئے تو وقت نے بھی کروٹ لی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا ۔ میاں صاحب ایک دور بین اوردانا شخص تھے انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ اب سیاست نے جو نئی کروٹ لے لی ہے تو اس میں جگہ بنانا لازمی ہے تاکہ اپنے کارخانوں اور ان "ہتھیاروں" کی حفاظت ممکن بنائی جاسکے جس سے کارخا نے چلتے ہیں۔ انہیں پتہ تھا کہ کارخانے چلانے کے لیے صرف بجلی ہی نہیں"بابوئوں"کی بھی ضرورت ہوتی ہے سرکار بابو ئوں کو خوش رکھتے رکھتے ان کامزاج پاکستان کی بیورو کریسی اور سیاست کو سمجھ چکا تھا اسی اثنا میں ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ اپنا کوئی بیٹا سیاست میں بھی داخل کردو ۔ یہ بات انہیں بھلی لگی اور انہوں نے اپنا ایک بیٹا تحریک استقلال میں شامل کرادیا۔ شمولیت کا یہ منظر بھی عجیب تھا، ملک حامد سرفراز تحریک استقلال پنجاب کے اہم راہنما تھے اور میں پنجاب کا جوائینٹ سیکرٹری تھا لاہور بار کے صدر ملک امین ایڈووکیٹ کے بھا ئی اچھا پہلوان انہیں تحریک استقلال میں شمولیت کے لیے ملک صاحب کے گھر واقع نسبت روڈ لاہور لے کر آئے۔ اچھاپہلوان کا پارٹی سے خلوص کام کر گیااور نواز شریف اصغر خان کی موجودگی میں تحریک استقلال میں شامل ہو گئے ۔ اس اثناء میں جنرل جیلانی پنجاب کے گورنر بن کر لاہور آگئے چند ماہ بعد انہوںنے اپنا مکان تعمیر کروانا شروع کروایا توانہوں نے اپنے بیٹے نوازشریف کو جنرل صاحب سے متعارف کرایا تو فرماں بردار بیٹے نے تحریک استقلال کو چھوڑ کر جنرل جیلانی کا ساتھ دیا۔ پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ اور پھر وزیراعلیٰ بنے پھر ترقی کرتے چلے گئے اور پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ سیاست میں بہت ترقی کی۔