ملکی سلامتی اور ہماری معیشت

میں نے ستمبر2008 میں اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ اب دنیا لوہے کے روایتی ہتھیاروں سے فتح نہیں ہوگی بلکہ معیشت کے مضبوط ہتھیاروں سے ہی دنیا پر حکمرانی کی جائے گی جس کی مثال ہمارے سامنے جاپان اور روس کی تھی اور اب دیگر کئی ممالک کے حوالے بھی دیئے جا سکتے ہیں جو لوہے کے ہتھیاروں کے بجائے معاشی ہتھیاروں سے دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں جیسا کہ تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور ملائیشیاء وغیرہ اور اب مضبوط و مستحکم ممالک کی دنیا پر اجارہ داری، ترقی پذیر ممالک پر من مانی اوردنیا کے موجودہ حالات و واقعات سے اس بات میں کوئی شک نہیں رہ گیا کہ ملکوں کی خودمختاری، سلامتی، فلاح اور بقاء کا راز مضبوط ومستحکم معیشت میںہی مضمر ہے ۔ اسی لئے ملکوں کی سلامتی ودفاع اور ان کی معیشت ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں ۔

اسی تناظر میں پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ دنوں کراچی میں منعقدہ ایک تقریب میں اپنے خطاب میں کہا ہے کہ "آج سلامتی اور معیشت ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ تمام قومیں پرانی سوچ پر نظر ثانی کرکے اقتصادی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان توازن پر توجہ دے رہی ہیں ۔پاکستان کی معیشت پر انہوں نے کہا کہ" ملکی معیشت ملے جلے اعشارئیے پیش کررہی ہے، گروتھ بڑھی ضرورر ہے مگر قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ انفراسٹرکچر اور توانائی میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن جاری کرنٹ اکائونٹ بیلنس ہمارے حق میں نہیں ہے، جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح کم ہے جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے ہمیں ٹیکس کی بنیاد میں وسعت ، مالیاتی نظم وضبط اور اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کو یقینی بنانا چاہیے۔ "اسکے علاوہ پاکستان کے معاشی واقتصادی ماہرین پاکستان کی معیشت کے بارے میں اسی طرح کے بیانئے جاری کررہے ہیں اور میرے گذشتہ آٹھ سالوں کے کالم گواہ ہیں کہ میں ہمیشہ قرضوں سے پاک آزاد وخودمختار معیشت کی سمت جانے کی بات کرتا رہا ہوں۔ حالانکہ آج کے جدید دور میں بیرونی قرضے یا غیر ملکی امداد کو ترقی پذیر ممالک کی آمدنی کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے مگر پاکستان کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں بیرونی قرضوں اورامداد پرہی مکمل انحصار اور بھروسہ کیا جاتا ہے جبکہ مناسب معاشی منصوبہ بندی اور مستحکم پالیسیوں نہیںبنائی جاتیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں قرضوں کو اتارنے کیلئے دوبارہ قرض کا کشکول اٹھانا پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک نے اپنی سائوتھ ایشیاء اکنامک فوکس (SAEF) رپورٹ میںمتنبہ کیا ہے کہ "معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے بیرونی شعبے کی صورتحال غیر یقینی ہو سکتی ہے اور پاکستان کو اپنی بیرونی ذمہ داریوں اور ادائیگیوں کو پورا کرنے کیلئے 31بلین ڈالرز کی ضرورت پیش ہوگی ۔اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "مالی سال 2017-18 میں پاکستان کے بیرونی اکائونٹ پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے اور مناسب اور متوازن معاشی پالیسیوں کی عدم موجودگی میں موجودہ خارجی صورتحال گھمبیر ہو سکتی ہے کیونکہ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ کم کرنے کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر اور پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور غیر ملکی ادائیگیوں کے دبائو میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ موجودہ معاشی حالت کے تناسب سے ایک سال قبل پاکستان کی معاشی حالت قدرے بہتر تھی جب زرمبادلہ کے ذخائر کرنٹ اکائونٹ خسارہ ،غیر ملکی قرضہ حتیٰ کہ کل پورٹ فولیو سرمایہ کاری کے لئے کافی تھے "۔ اس علاوہ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ "پاکستان کو اپنی غیر ملکی ادائیگیوں کے لئے مزید 31بلین ڈالرز کی ضرورت پیش ہوگی جو کل جی ڈی پی کا 9 فیصد ہے جبکہ ادائیگیوں کا بوجھ زرمبادلہ کے موجودہ ذخائر سے دگنا ہوجائیگا"۔ ورلڈ بینک کی اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارباب اختیار کے معاشی دعوئوں کے برعکس پاکستان کی معاشی حالت بہت اچھی نہیں ہے کیونکہ مناسب معاشی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنے کے بجائے ارباب اختیار ذمینی حقائق کے برعکس اعدادوشمار پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
گذشتہ دنوں وفاقی وزیر خزانہ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ برآمدات میں 6فیصد اضافہ ہوا ہے مگرپاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس کے مطابق موجودہ مالی سال میں جولائی تا اگست برآمدات میں گذشتہ سال کے اسی دورانئے کی بانسبت 10.84فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ گذشتہ سال جولائی سے اگست برآمدات 4,666ملین ڈالرز تھیں اور اب 5,172 ملین ڈالرز ہیں مگر درآمدات میں 22.19 فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے کیونکہ گذشتہ سال کے اسی دورانئے میں درآمدات 11,670ملین ڈالرز تھیں اور اب 14,260ملین ڈالرز ہیں یعنی کہ تجارتی خسارے میں 29.75فیصد اضافہ ہوا ہے کیونکہ گذشتہ سال کے اسی دورانئے میں تجارتی خسارہ 7,004ملین ڈالرز تھا اور اب 9,088 ملین ڈالرز ہے ۔اب جبکہ غیر ملکی ادائیگیوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے اس لئے ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں میں تبدیلیاں کرتے ہوئے تجارتی خسارے کوکم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔جس کیلئے درآمدی سامان پر ڈیوٹی میں اضافہ ایک احسن اقدام ہے جس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں خود اقرار کیا کہ موجودہ مالی سال کے پچھلے دو ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 3.10ارب ڈالرز رہا جبکہ گذشتہ مالی سال کے اسی دورانئے میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2.6ارب ڈالرز تھا یعنی کہ صرف دو ماہ میں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 16فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مگر اگر ہم مالی سال 2015-16اور مالی سال2016-17کاکرنٹ اکائونٹ خسارے کا تجزیہ کریں تو صورتحال بڑی بری نظر آتی ہے کہ مالی سال 2015-16میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ4,867ملین ڈالرز تھا جبکہ 2016-17میں یہ خسارہ 12,120ملین ڈالرز کی سطح پر پہنچ گیا یعنی کرنٹ اکائونٹ خسارے میںصرف ایک سال میں 59.84فیصد اضافہ ہوا ، جس میں اضافہ بتدریج جاری ہے اور اگرزمینی حقائق کے مطابق فیصلے نہیں کئے گئے اور متوازن پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ موجودہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کو اپنا ایک کارنامہ قرار دیتی ہے مگر موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوراً بعد سے قرضوں کا حصول جاری رکھا تھا اور یہ قرضوں کے حصول کا شاخسانہ ہی تھا کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اوراکتوبر 2016میں ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 24.025ارب ڈالرز کی تاریخی سطح پر پہنچ گئے تھے جس میں سے 18.925ارب ڈالرز پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس اور 5.1 ارب ڈالرز تجارتی بینکوں کے پاس تھے جس پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے مگر چونکہ یہ اضافہ معاشی ترقی کی وجہ سے نہ تھا اور متوازن پالیسیوں اور مناسب منصوبہ بندی کا فقدان ہے اوراب تک برآمدات ودرآمدات میں بڑاعدم توازن برقرار ہے اسی لئے زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور 6 اکتوبر کی مر کزی بینک کی رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 19.672ارب ڈالرز کی سطح پر ہیں جن میں سے مرکزی بینک کے پاس 13.78ارب ڈالرز اور تجارتی بینکوں کے پاس 5.88ارب ڈالرز ہیں۔ اکتوبر2016کے مقابلے میں اکتوبر2017تک مرکزی بینک کے پاس موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر میں 27 فیصد کمی ہونے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرکزی بینک پر بیرونی ادائیگیوں کا کس قدر دبائو ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ محصولات میں تقریباً 20فیصد اضافہ ہوا ہے مگر یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ محصولات میں یہ اضافہ ٹیکس کے دائرہ کاربڑھانے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ ٹیکس بڑھانے کی وجہ سے ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان پر بیرونی ادائیگیوں اور قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے اسی لئے پاکستان کے مرکزی بینک کے مطابق1990میں پاکستان پر بیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کا بوجھ صرف 20.9ارب ڈالرز تھا جو اب جون 2017کی رپورٹ کے مطابق 82.98ارب ڈالرزہوچکا ہے یعنی قرضوں میں 75گنا اضافہ ہوچکا ہے۔اول الذکر میں نے کہا تھا کہ معیشت اور ملکی سلامتی کا براہ راست تعلق ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے مالیاتی و تجارتی خسارے میں ہوگا اور بیرونی قرضوں، قرضوں کی قسطوں اور ادائیگیوں کا بوجھ بڑھے گا اور ملک ان بیرونی ادائیگیوں کو پورا کرنے سے قاصر ہوگا تو ملک پوری طرح سے عالمی اداروں کے رحم وکرم پر ہوگا، وہ جس طرح چاہیں گے ملکی معاشی پالیسیاں بنائیں اور اس پر عملدرآمد پر مجبور کریں گے، پاکستان کے ارباب اختیار کو مکمل طور پراپنی کٹھ پتلی بناسکیں گے، ملکی اسٹریٹیجک اور دفاعی اداروں پر اپنی مرضی مسلط کرسکیں گے اور ان کی بجٹ میں کمی وکٹوتی اپنی مرضی ومنشاء سے کریں گے یہاں تک کہ ہمارا ایٹمی پروگرام بھی ان کے رحم وکرم پر ہوگا ۔ تو پھر ہر معمولی سا ادراک رکھنے والا اور تھوڑا سا بھی ذی شعور فرد باآسانی اندازہ کرسکتا ہے کہ ملکی سلامتی ، دفاع اور بقاء کا کیا حال ہوگا اور یہ عالمی طاقتوں اور ان کے زیر انتظام عالمی مالیاتی اداروں کا مطمع نظر ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر انتہائی کمزور کرتے ہوئے اس کے دفاع کو اپنے ہاتھوں میں رکھا جائے ۔

ای پیپر دی نیشن