پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کا کہنا ہے کہ جسٹس قیوم کی رپورٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے یہ دلیل انہوں نے وسیم اکرم کو کرکٹ کمیٹی میں شامل کرنے کے لیے پیش کی ہے۔ انہی الفاظ کو سابق کپتان نے بھی دہرایا ہے۔جبکہ نئی کرکٹ کمیٹی کے سربراہ محسن حسن خان نے بھی یو ٹرن لیتے ہوئے احسان مانی کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔محسن حسن خان ہمیشہ اپنے انٹرویوز میں کہتے رہے ہیں کہ مشکوک کھلاڑیوں کے سے ساتھ کبھی کام نہیں کرونگا اتنے برسوں کا سخت نقطہ نظر احسان مانی اور سبحان احمد کے ساتھ چند گھنٹوں کی میٹنگ سے بدل گیا اور محسن خان بھی مان گئے کہ جسٹس قیوم کمشن کی رپورٹ میں کچھ نہیں تھا۔ محسن حسن خان اتنا عرصہ سنی سنائی باتوں پر ملکی کرکٹ کے بڑے ناموں کے بارے بدگمان رہے اور انہیں برا بھلا بولتے رہے لیکن کرکٹ بورڈ کے کسی آفیشل نے انہیں حقیقت بتانے کی زحمت گوارا نہ کی بالخصوص چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد جنہوں نے سابق چیف سلیکٹر کے تمام خدشات دور کر دیے۔ سی او او کے پاس اتنی اہم مستند اور مصدقہ دستاویزات موجود تھیں تو انہوں نے پہلے کیوں محسن حسن خان کو اس سے آگاہ نہ کیا سبحان احمد نے ان سے ایسی معلومات کا تبادلہ کیوں نہ کیا جس سے محسن خان کو اندازہ ہوتا کہ جسٹس قیوم کمشن رپورٹ میں کچھ نہیں محسن حسن خان برسوں برا بھلا کہتے رہے اور کرکٹ بورڈ سنتا رہا۔ اگر وسیم اکرم کے خلاف کچھ نہیں تھا تو پھر سلیم ملک، اکرم رضا اور عطاءالرحمان کو کس جرم کی سزا دی گئی ہے اور وہ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ عطائ الرحمان نے لندن سے فون کر کے کہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اگر رپورٹ میں کچھ نہیں تھا تو ہمارا کیرئیر کیوں خراب کیا گیا۔ اکرم رضا کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ اپنا دفاع کیا ہے ہر کسی کو دعوت دی ہے کہ وہ اس موضوع پر بات کر لے۔بہرحال غضب غلط بیانی کی عجب کہانی ہے۔اس صورتحال کے بعد ہم نے جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کو فون کیا تو کہنے لگے ان دنوں ساری باتیں ایسی ہی ہق رہی ہیں اس رپورٹ میں سارے میچ فکسنگ اور اس میں ملوث تمام کرداروں کے بارے ٹھوس شواہد موجود تھے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں تھی وسیم اکرم کے بارے لکھا گیا تھا کہ وہ کوئی عہدہ نہیں لے سکتا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیاء کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ انکوائری رپورٹ میں نہیں ہیں انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر ہی میں نے وسیم اکرم کو کپتان نہیں بنایا تھا۔ وسیم اکرم اگر بے قصور تھے وہ انکوائری رپورٹ غلط تھی تو پھر انہوں نے جرمانہ کیوں ادا کیا۔ وسیم اکرم کو اہم عہدے سے دور انکوائری رپورٹ کی سفارشات کی روشنی پر ہی رکھا گیا تھا۔ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا تھا کہ جسٹس قیوم کمشن کی رپورٹ میں وسیم اکرم کے حوالے سے سفارشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وسیم اکرم کے خلاف شکایات اور اطلاعات تھیں کہ انکا کردار میچ فکسنگ کے حوالے سے مشکوک ہے اور ان پر جرمانہ اور اہم عہدے سے دور رکھنے کی سفارش اس وقت کے حالات اور تفتیش کے مطابق بالکل ٹھیک تھی۔ کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں تفتیش کی بہت زیادہ سہولیات یا ذرائع موجود نہیں تھے۔ ان سفارشات ہر عمل کرنا بعد میں آنیوالے بورڈ سربراہان کی ذمہ داری تھی ہمارے کرکٹ بورڈ نے ا س رپورٹ کو نظر انداز کیا جس کا ہم آج بھی نقصان اٹھا رہے ہیں۔خالد محمود کے دور میں ہی پہلی مرتبہ پاکستان کرکٹ میں کرپشن اور میچ فکسنگ کی جوڈیشل انکوائری کروائی گئی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کی کرکٹ کمیٹی میں گورننگ بورڈ کے اراکین کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں محکموں اور علاقائی ایسوسی ایشنز کا کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے۔ کرکٹ کمیٹی کے اراکین پی سی بی کے بعض اہم عہدیداروں کے خلاف بیانات دے چکے ہیں۔ بالخصوص قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے حوالے سربراہ کمیٹی کے خیالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ کمیٹی کے اراکین کے مفادات کا بھی تصادم ہے۔ مصباح الحق ایک محکمے اور ایک فرنچائز کی طرف سے بھی کھیل رہے ہیں۔ وسیم اکرم بھی پاکستان سپر لیگ کی ایک فرنچائز کے ساتھ منسلک ہیں۔ کرکٹ کمیٹی میں ایک مشکوک کرکٹر کی موجودگی نے ابتدا میں ہی اسے متنازعہ بنا دیا ہے۔ کرکٹ کمیٹی کے اراکین کو ہر میٹنگ کا پچاس ہزار معاوضہ اور پانچ ہزار ڈیلی الاونس دیا جائے گا۔کمیٹی اراکین کے سفری اخراجات بھی کرکٹ بورڈ ادا کرے گا۔ ایک طرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اختیارات میں کمی کا دعوی کرتے ہیں تو دوسری طرف واقفان حال کہتے ہیں کہ انہوں نے کرکٹ کمیٹی کی تشکیل کے لیے گورننگ بورڈ کے اراکین سے اختیارات لے لیے تھے۔ باخبر دوست کہتے ہیں کہ بورڈ چیئرمین نے پاکستان ٹیم کی حتمی منظوری بھی نہیں دی تھی وہ اس کام سے بھی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔