نئی حکومت کو ورثہ میں لاتعداد مسائل ملے ہیں جن میں معاشی بدحالی اہم ترین ہے۔ ہمارا موجودہ خسارہ جو 2013-2014 میں 3.1 (تین اعشاریہ ایک)بلین ڈالر تھا بڑھ کر 18 (اٹھارہ) بلین ڈالر ہوچکا ہے اور بجلی کا گردشی قرضہ 1200 (بارہ سو) بلین ہوچکا ہے جس میں سے 500 (پانچ سو)بلین روپے کا قرضہ پی پی پی حکومت اور پی ایم ایل (این)کی طرف سے ملا۔ در اصل بجلی کی پیدا وار بہت مہنگی ہے نیز اسکی Trasmission یعنی بانٹ اور تقسیم میں بہت خسارہ ہوتا ہے۔ بجلی کی چوری اور بد عنوانی تمام حدیں پار کرچکی ہے اس وقت بجلی کی چوری اور رشوت ستانی کا دور دورہ ہے۔ اب پی ٹی آئی حکومت کو تمام نقصانات کی تلافی کرنا پڑے گی۔ اس کے لیے بجلی کے نرخ بڑھ جائیں گے جو کہ پہلی بد عنوان حکومتوں کے گناہوں اور بد عنوانیوں کی پاداش میں کیا جائے گا۔ اس کا اصل حل ان چیزوں میں مضمر ہے ۔
اول:بجلی کی پیدواری لاگت میں کمی، ڈسٹری بیوشن میں ہونےوالے نقصانات کا ازالہ، اور بجلی کی چوری کو مکمل طور پر روکنا۔ کیا نئی حکومت ایسا کرسکے گی۔ یہ صرف وقت ہی بتا سکتا ہے۔ دوسری بری خبرگیس کا قرضہ ہے جو کہ اب 370 (تین سو ستر) بلین ہوچکا ہے اور یہ پی ایم ایل(این) کے پانچ سالہ دور میں ہوا۔ گیس کی چوری، leakage اورمیڑوں میں خرابی اب بڑھ کر 15% (پندرہ فی صد) یا 500 (پانچ سو)ملین کیوبک فیٹ ہر روز کے حساب سے ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ صرف 3% (تین فی صد) ہے۔
ایک قلیل عرصے میں نئی حکومت کو گزشتہ دور میں ہونے والی گیس کی چوری ،لوٹ مار Leakage اور میٹروں میں خرابی کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا اس لئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاچکا ہے۔ یہ پچھلی بد عنوان حکومتوں کا خمیازہ بھگتنے کے مترادف ہے۔ اور نئی حکومت کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ ضروری سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ کیا نئی حکومت اس سے عہدہ براہ ہوسکے گی۔حکومت وقت نے چند ایک بہترین حکمت عملیاں اختیار کی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
اول: تمام حوصلہ شکن باتوں کے باوجود اچھی خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک بہت سوچے سمجھے انداز میں نئی Strategy یعنی حکمت عملی تشکیل دی ہے۔ اول برآمدات کو بڑھانے کےلئے ایک جامعہ منصوبہ بنالیا گیا ہے ۔ کیونکہ ہماری برآمدات کا ایک بڑا حصہ کپاس اور اس سے بننے والی اشیاءپر مشتمل ہے اس لئے یہ ایک بہت ہی عقلمندانہ اور اچھا فیصلہ کیا گیا ہے کہ کپاس سے متعلق اور اس سے بننے والی اشیاءکے لیے الگ Gas tarif مقرر کیا ہے۔ Economic coordination commitee برائے کیبنٹ نے کپاس سے متعلقہ اشیاءپر Five zero rated export منظور کیا ہے جس میں کپڑے کی صنعت۔ قالین بافی۔ چمڑے سے متعلق کاروبار اور Surgical goods یعنی آلات جراحی شامل ہیں۔ جناب عادل بشیر جو کہ ملک کی تمام ٹیکسٹائل ملز برائے پنجاب کے لیے منتخب نئے چیر مین ہیں انھوں نے یہ یقین دھانی کرائی ہے کہ بند ہونے والے تمام ٹیکسٹائل یونٹس اگلے چھ ماہ میں انشاءاللہ دوبارہ کام شروع کردیں گے۔
دوم: حکومت کی ایک اور سٹرٹیجی یعنی حکمت عملی گھروں کی تعمیر کے بارے میں ہے۔ ورلڈ بنک کے ہا¶سنگ فنانس پراجیکٹ (Housing finance project) کے مطابق پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 10 (دس) ملین گھروں کی کمی ہے جو کہ دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ان گھروں کی تعمیر سے تقریباً 36 (چھتیس)دیگر ادارے جو اس کام میں معاون ثابت ہونگے مستفید ہوسکیں گے۔ اس کی مثال کینیا، مصر، نائیجیریا اور جنوبی افریقہ میں موجود ہے جہاں ایسا ہوا ہے۔سوم: GDP سے mortgateیعنی گروی رکھنا کی شرح پاکستان میں 0.25% (صفر اعشاریہ پچیس)ہے جبکہ ملائیشیامیں یہ 23% (تیئس فی صد)ہے ۔ بھارت میں 11% (گیارہ فیصد) ہے۔ امریکہ میں شرح 80% (اسی فیصد)ہے۔
اگر یہ بھارت اور دیگر ممالک میں ہوسکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ عالمی بنک نے ایک بلین ڈالرMortgate liqidity کا یقین دلایا ہے۔ چہارم: چوتھی اور آخری حکمت عملی برائے ترقی یہ ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ملک میں invest کرنے کا شعور دلایا جائے ۔ اس کے لیے ہمارے بیرون ملک سفارت کار دن رات محنت کریں۔ اور ان لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ ان کا پیسہ ملک میں محفوظ رہے گا۔ اس طرح اندازاً 29 (انتیس) بلین ڈالر ملک میں آنے کا امکان ہے جوکہ بینکوں کے ذریعے ملک میں بھیجا جائے گا۔ اصل میں ہمارے ماضی میں ایک بہت بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ پی ایم ایل (ن) نے اپنے پہلے دور حکومت میں باہر سے بھیجے ہوئے اور اندرون ملک افراد کے سارے ڈالر قبضے میں کرلئے تھے اور اس کی جگہ پاکستانی پیسے دیئے تھے۔دوسرے اسی حکومت نے زیادہ تر انحصار غیر ممالک سے ادھار لے کر کام چلایا جس سے ملک بے حد مقروض ہوگیا۔ امید ہے کہ نئی حکومت کی طرف سے لئے گئے اقدامات سے ملک ترقی کرے گا۔ اور ملک میں خوشحالی آئے گی۔ انشاءاللہ