ہتھکڑیاں ہٹائیے ‘ تالیاں بجائیے!!

Oct 28, 2018

تدریس مقدس پیشہ ہے۔ گزشتہ دنوں نیب کے ہاتھوں درس و تدریس سے وابستہ ہم وطن بزرگ پروفیسرز کی بے رحم تذلیل کے شرمناک مناظر میڈیا چینلز پر دنیا بھر نے دیکھے۔ اول تو پنجاب سرگودھا کے سابق وائس چانسلر صاحب کو چھاپہ مار انداز میں گرفتار کیا گیا جو نہایت نیک نام پروفیسر اور علم و تحقیق ‘ تدریس و تصنیف اور فہم و دانش کے بلند مقام پر ہیں۔ گویا یہ توہین کافی نہ تھی کہ اس کے دو تین روز بعد پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سمیت زیر حراست دیگر سینئر اساتذہ کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر احتساب عدالت لے جایا گیا۔ ان بزرگ اساتذہ کرام میں سے ایک تو چھڑی کے سہارے بھی بمشکل قدم اٹھا رہے تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان پروفیسر حضرات پر لگائے گئے الزامات کے سچا جھوٹا ہونے کا فیصلہ عدالت کو ابھی کرنا ہے۔ اس مذموم ’’ہتکھڑی پریڈ‘‘ کے باعث نہ صرف یہ کہ وطن عزیز کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ اس طرح نیب کے کرتا دھرتاؤں نے خود اپنے ادارے کا تشخص بھی اس پنجابی محاورے کے مصداق پامال کیا ’’ککڑ کھیہہ اڑائی تے اپنے ای سر وچ پائی‘‘ ! وغیرہ۔ اگرچہ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان نے پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگانے کا نوٹس لے کر ڈی جی نیب کو عدالت طلب کر لیا اور سرزنش کر کے تحریری معافی بھی منگوائی لیکن ان اساتذہ کرام اور بالواسطہ ان کے جملہ خاندانوں کی عزت نفس اور ناموس کو جو دھچکا پہنچ چکا ہے اور جس طرح ان کی پگڑیاں سرعام اچھالی جا چکی ہیں‘ محض ایک کاغذی سا معافی نامہ اس کی تلافی ہرگز نہیں کر سکتا۔ بالخصوص جبکہ خود فاضل چیف جسٹس صاحب اپنے ریمارکس میں استاد کی بے حرمتی کو اپنے لئے ناقابل برداشت اور ہتھکڑی لگنے کو پروفیسر کی موت قرار دے چکے ہیں !! وغیرہ وغیرہ
قارئین! اس کے برعکس اب ذرا دوسری جانب معروف دانشور استاد اور روحانی کردار ’’بابا رحمتے‘‘ کے خالق جناب اشفاق احمد کی اٹلی کے جج کی عدالت میں بطور ٹیچر پیشی پر جج موصوف کی طرف سے عزت و احترام کے اظہار کے مشہور واقعے کی طرف آئیے! اس کی جزئیات کا اعادہ یہاں اس لئے ضروری نہیں ہے کہ وطن عزیز میں پروفیسر کی ہتھکڑی پریڈ کے رد عمل میں بے شمار کالم نگاران واقعہ کو اپنے اپنے انداز میں اپنے کالموں اور تحریروں کی زینت بنا چکے ہیں۔ یہ بھی لگتا ہے کہ ان میں سے دوچار خامہ فرسا مہربانوں نے تو اشفاق احمد کی زبانی اپنے کانوں سے یہ واقعہ سن رکھا تھا۔ نہ ہی ان کی کتاب ’’زاویہ‘‘ میں پڑھا ہو گا۔ چنانچہ ان ستم ظریفوں نے بوقت تحریر واقعے کی اصل جزئیات میں حسب منشاء رد و بدل بھی کر لیا۔ حتیٰ کہ فاضل چیف جسٹس آف پاکستان بھی ایک حالیہ تقریب میں اپنے خطاب میں پروفیسرز کو ہتھکڑیوں کے ذکر پر مذکورہ واقعے کا حوالے دیتے ہوئے اسے اٹلی کی بجائے جرمنی سے منسوب کرنے کے علاوہ اٹالین جج صاحب کی جگہ بھی لیڈی جج بتا گئے جو درست نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جج صاحبہ‘‘ نے اشفاق احمد صاحب کا جرمانہ معاف کر دیا تھا جبکہ اس کے برعکس خود اشفاق احمد کے بقول جج صاحب نے ازروئے ضابطہ ڈبل یعنی دگنا جرمانہ کیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ خیر اس پہلو پر مزید بحث میں پڑے بغیر غور کرنے کی اصل بات قارئین ہم سب کے لئے یہ بھی ہے کہ اٹلی کے جج کے روبرو کٹہرے میں کھڑے نوجوان لیکچرر اشفاق احمد نہ تو اٹلی کے شہری تھے اور نہ ہی کوئی ایسے بزرگ صورت کہ جج صاحب کم از کم ان کے سفید بالوں ہی کا کچھ لحاظ کر لیتے! اب خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ اس واقعے میں ہمارے جملہ ارباب اختیار اور مقتدر حلقوں کے لئے کیا سبق پوشیدہ ہے۔ یہی ناں کہ اٹلی کے ’’بابا رحمتے‘‘ کی نظر میں استاد مکرم کی عزت و تکریم‘ زمان و مکان کی قید سے آزاد‘ آفاقی درجہ رکھتی تھی! دوسری اہم بات اس واقعے سے یہ عیاں ہوتی ہے کہ اٹلی کے جج صاحب نے اشفاق احمد کی شان میں قصیدے پڑھنے سے قبل ان سے بحیثیت لیکچرر کوئی شناختی ثبوت وغیرہ تک طلب نہ کیا! آخر پھر بنیاد کیا ہے ان ممالک میں ’’ملزم‘‘ کے بیان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی۔ یہ بھی غور طلب بات ہے وغیرہ۔
معزز قارئین‘ احترام استاد کے حوالے سے وطن عزیز پر نظر ڈالیں تو کم از کم تین چار دہائی قبل تک اساتذہ کرام کے ادب و احترام اور عب داب کی صورت حال ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں کافی حد تک مسلمہ ہوا کرتی تھی۔ خدا لگتی یہ ہے کہ گئے وقتوں کے اساتذہ کرام اپنی اہلیت و قابلیت اور اپنے پیشے کے ساتھ اخلاص ‘ نیک نیتی‘ دیانت اور لگن کے بل بوتے پر شاگردوں اور معاشرے میں عزت و احترام صحیح معنوں میں Earn یعنی کمایا کرتے تھے۔ افسوس کہ وہ زمانے کب کے لد چکے۔
قارئین کرام! استاد کے جائز مقام اور عزت و توقیر رفتہ کا ایک آنکھوں دیکھا یادگار مظاہرہ پیش خدمت ہے۔ تعلق اس واقعے کا گورنمنٹ کالج لاہور کے معروف سابق پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد سے ہے۔ ڈاکٹر نذیر ایک درویش صورت‘ مجسم سادگی و انکساری صاحب علم و ادب بلند نگاہ دانشور ‘ بہترین منتظم اور بے حد شفیق و ہر دلعزیز استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ درس و تدریس کے میدانوں میں ڈاکٹر نذیر احمد کا نام اور مقام ہمیشہ بلند تر رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا شہرہ یہ بھی تھا کہ اپنے ہر دور کے شاگردوں کے علاوہ ہر ایک طالب علم کو اپنی اولاد کی مانند گردانتے۔ جواباً طالب علموں کی جانب سے بھی انہیں باپ کا سا مرتبہ بہم رہتا۔ افسوس کہ اس ناچیز کو ڈاکٹر صاحب کی شاگردی کا شرف تو حاصل نہ ہو سکا کیونکہ 1967ء میں راقم کے گورنمنٹ کالج لاہور میں سال اول میں داخلے سے بہت پہلے ڈاکٹر صاحب ریٹائر ہو چکے تھے اور اس وقت پروفیسر اشفاق علی خان پرنسپل کے عہدے پر فائز تھے۔ البتہ راقم نے ڈاکٹر نذیر احمد کی ہر دلعزیز شخصیت اور پیشہ ورانہ اوصاف حمیدہ کے علاوہ بالخصوص ’’اولڈ راوئنز‘‘ یعنی گورنمنٹ کالج لاہور کے سابق طالب علموں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کے عزت و احترام کے بارے میں بہت کچھ پڑھ‘ سن رکھا تھا۔(جاری)

لیکن ڈاکٹر صاحب سے شرف ملاقات تو دور کی بات ان کے دیدار کا موقع بھی راقم کو ان کی تصاویر کے سوا کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ ایک غائبانہ سی عقیدت ڈاکٹر صاحب سے البتہ ہو چکی تھی۔ معاشرے میں ان کی بے پناہ مقبولیت اور مدح سرائی پر اشتیاق بھی بہت تھا کہ کبھی تو اس عظیم شخصیت کے دیدار اور معاشرے میں ان کی توقیر و پذیرائی کی کیفیت آنکھوں دیکھنے کا موقع ملے۔ وغیرہ کرنا خدا کا کہ 1968ء کے کسی مہینے میں راقم کو یہ موقع نصیب ہو گیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے سالانہ کھیلوں کی غالباً افتتاحی تقریب تھی جس میں ڈاکٹر نذیر احمد مہمان خصوصی تھے۔ اہتمام اس کا کالج کے پروقار تاریخی ’’اوول‘‘ گراؤنڈ میں کیا گیا تھا۔ تقریب اس لحاظ سے پورے جوش و خروش اور عظیم الشان انداز میں منعقد کی گئی کہ سالانہ کھیلوں کا ازسر نو اجراء کچھ برسوں کے تعطل کے بعد ہو رہا تھا۔

مزیدخبریں