پلیٹ لیٹس کی کم مقدار کس طرح بڑھ سکتی ہے اور شربت پپیتا

ڈینگی نے کئی برسوں کے بعدسراٹھایاہے۔شہبازشریف کے زمانے میں یہ زیادہ تر پنجاب تک محدود رہا لیکن ا س سال یہ کراچی، حیدر آباد، ملتان، پشاور ، پنڈی سے ہوتاہوا لاہور میں بھی پھنکارنے لگا۔ تین صوبوںکو ا س نے متاثر کیا۔ صحت کا شعبہ سراسر صوبائی ذمہ داری ہے۔ا سلئے ڈینگی پر قابو پانے کے لئے سندھ، پنجاب اور خیبر پی کے وزرائے اعلیٰ کو دن رات ایک کر دینا چاہئے تھا۔ان سب کے سامنے شہباز شریف کی ورکنگ کا ماڈل تھا۔ خبریں آئیں کہ سابق وزیر اعظم نوز شریف کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گر گئے۔ کہا تو یہی گیا کہ اس کی وجہ ڈینگی نہیں مگر وجہ کیا ہے۔ اس کا پتہ چھ روز گزرنے کے بعد بھی نہیں چل سکا۔ میںنے ڈاکٹر آصف جاہ سے رابطہ کر کے پوچھا کہ یہ ڈینگی جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کاعلاج آپ نے سن بارہ تیرہ میں شربت پپیتا سے کیا۔ ڈینگی کے خاتمے کاایک کامیاب تجربہ پڑوسی ملک میں نئی دہلی کے چیف منسٹر کیجری وال نے کیا ہے جس کی پوری تفصیل میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں۔خلاصہ یہ ہے کہ انہوںنے دلی کے شہریوں کومتحرک کیا ہے اور ڈینگی کا لاروا پھلنے پھولنے نہیں دیا جس کا صلہ یہ ملا کہ پانچ سال قبل دلی میں آٹھ ہزار ڈینگی کے مریض ہسپتالوں میں داخل ہوئے مگر اس سال صرف آٹھ سو۔اب رہا مسئلہ کہ انسانی جسم میں پلیٹ لیٹس کم ہونے کی وجوات کیا ہیں۔اس ضمن میں مجھے ایک بار پھر ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے ہی رابطہ کرنا پڑا۔ وہ کسٹمز کے اعلی افسر ہیں مگر انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار۔ اس مقصد کے لئے انہوںنے کسٹمز ہیلتھ کیئر سو سائٹی تشکیل دی ہے۔ فلاح انسانیت کے لئے انہیں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز بھی عطا کیا ہے۔ آئیے دیکھئے کہ پلیٹ لیٹس گھٹنے کی کیا کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔ڈاکٹر جاہ کے ساتھ اس ریسرچ رپورٹ کی تیاری میں ڈاکٹر یمنیٰ نایاب بھی شامل ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر شخص یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ خون کے پلیٹلٹس کیا ہوتے ہیں۔ ڈینگی کے علاوہ کون کون سی بیماریوں میں یہ کم ہوتے ہیں۔ ان کا کونسا لیول خطرناک ہوتاہے۔ کیا ایک دفعہ پلیٹلٹس گر کر دوبارہ نارمل ہو سکتے ہیں؟ کو ن کون سی بیماریوں میں پلیٹلٹس کی مقدار کم ہوتی ہے اور اس کا کوئی علاج ہے بھی کہ نہیں۔ خون میں سرخ اور سفید خلیوں کے علاوہ پلیٹ لیٹس بھی ہوتے ہیں۔ پلیٹلٹس کا لفظ دراصل پلیٹ سے ماخوذ ہے۔ یہ جسم کے پولیس مین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جسم کے کسی حصے پر جب کٹ لگتاہے۔ خون نکلنے لگتاہے۔ خون کے یہ محافظ اس جگہ میں آکر پلیٹ کی طرح جمع ہو جاتے ہیں ۔ دماغ کو سگنلز بھیجتے ہیں کہ مزید پلیٹلٹس ادھر آجائیں اور یوں سارے جمع ہو کر خون بہنے سے روکتے ہیں۔ ایک نارمل آدمی کے خون میں ان کی مقدار ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ تک ہوتی ہے آج کل ڈینگی کا مرض عام ہے۔ ڈینگی میں بھی وہ آخری سٹیج ہوتی ہے جب ان کی مقدار چند ہزار رہ جائے۔ اس اسٹیج پر ڈیڈ لائن شروع ہو جاتی ہے جس سے مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس سال اب تک ڈینگی سے 52 اموات اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہو چکی ہیں۔ نواز شریف کا ڈینگی ٹیسٹ نیگٹو آیا ہے۔پلیٹلٹس میں کمی کی دوسری وجوہات میں کوئی اور وائرل انفیکشن مثلاََ ہیپا ٹائٹس بی اور سی بھی ہو سکتاہے۔ خون کے خطر ناک امراض بلڈ کینسراور لیو کیمیا میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بیماریاں جن میں جسم کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے مثلاََ ایڈز ، SLE اور جوڑوں کے مرض میں بھی پلیٹلٹس کم ہو جاتے ہیں۔ مختلف قسم کی ادویات لینے سے بھی ایک دَم پلیٹلٹس گر سکتے ہیں ۔ پلیٹلٹس گرنا شروع ہوجائیں تو وہ ایک دَم مزید گرتے ہیں ۔ جسم کی قوت مدافعت میں کمی آجاتی ہے۔ ذرا سے انفیکشن سے حالت خراب ہو جاتی ہے۔ وائرل کے علاوہ مختلف قسم کے بیکٹیریا سے بھی پلیٹلٹس کی کمی ہو جاتی ہے۔ پلیٹلٹس گرنے کی ایک مشہور وجہ ITP ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جسم کا مدافعاتی نظام ٖغیر فعال ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی مقدار بتدریج کم ہو جاتی ہے۔ مختلف قسم کی کینسر کی بیماری میں استعمال ہونے
والی ادویات، مرگی کی بیماری کی ادویات اور ہیپارین Heparain لینے سے بھی ان کی مقدار گر جاتی ہے۔خون میں جب پلیٹلٹس کی مقدارر گرتی ہے تو جسم میں کمزوری ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے بندہ ڈائون ہوجاتا ہے۔ جسم میں شدید کمزوری، جوڑوں میں درد ہوتاہے۔ منہ مسوڑھوں اور ناک سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں سوجن ہو جاتی ہے۔ بلیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے شاک میں جانے کی وجہ سے موت بھی ہوسکتی ہے۔ جسم پر سرخ رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جسم پر کسی نے چاقو سے زخم لگائے ہوئے ہیں۔ کٹ لگنے سے جسم کے مختلف حصوں سے خون رستا ہوا محسوس ہوتاہے۔ جسم پہ ذرا سا کٹ لگ جائے تو خون بہنا بند نہیں ہوتا۔ مرض کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ سی بی سی ، ہیپاٹائٹس بی اور سی ، ٹوٹل باڈی ایکین۔ بون میروسیمئر اور PET سکین کروائے جاتے ہیں جن سے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بیماری میں تلی بھی بڑھ جاتی ہے۔ وٹامن بی اور بی نائن کی کمی کی وجہ سے بھی پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ پلیٹلٹس کم ہونے کا اچانک پتہ چلتا ہے۔ ان میں بتدریج کمی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب تک بیماری سے بندہ ادھ موا نہیں ہو جاتا، اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اس کے بعد تشخیص کرنے سے اس کمی کی وجہ کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن جسم کے مختلف حصوں سے بلیڈنگ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بیماری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ جسم کے مختلف حصوں سے بلیڈنگ ہو جانا میڈیکل ایمرجنسی ہے۔ فوراََ ڈاکٹر اور ہسپتال سے رجوع کرنا چاہیے۔فوری طور پر پلیٹلٹس کی کمی کو میگا پلیٹلٹ کٹس لگا کر پورا کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے لگانے کے باوجود پلیٹلٹس اور خون کے سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ہے۔ میگا کٹس کے علاوہ جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیےImmumoglobulin کی ڈرپس لگائی جاتی ہیں۔ اگر خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کسی بیماری کی وجہ سے نہ گررہی ہو جیسا کہ ITP کی بیماری میں ہوتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ خود ہی نارمل مقدار میں آنا شروع ہو جاتے ہیں۔اگر کسی دوا کی وجہ سے کمی ہو رہی ہو تو فوری طور پر اس دوا کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ڈینگی کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ کیا گیا کہ ڈینگی وائرس سے متاثر مریضوں میں ڈینگی بخار میں جب پلیٹلٹس کی مقدار گرتی ہے تو پیپتا کے پتوں کا جوس استعمال کرنے سے فوری طور پر ان کی مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ ڈینگی بخار کے ہزاروں مریضوں کو پیپتا کے پتوں کا جوس دیا گیا جسے لینے کے بعد ان کے پلیٹلٹس کی تعداد دو تین دن میں نارمل ہوگئی۔ دینگی کے علاوہ ITP کے مریضوں میں بھی پپیتا کا شربت کامیابی سے استعمال کیا گیا ،اس کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی میں بھی خون میں پلیٹلٹس کی مقدار کم ہو جاتی ہے۔ ان مریضوں میں پپیتا کے پتوں کا جوس کامیابی سے استعمال کیاگیا۔ اگر کچھ بن نہ پڑے تو پھر پلیٹلٹس کی میگا کٹس لگاتے ہیں اور اس سے بھی فرق نہ پڑے تو پھر جسم کے مدافعاتی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ImmunoGlobulin کی ڈرپس لگاتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ سٹیرائیڈ دوائیں بھی دیتے ہیں جن سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر پلیٹلٹس کی مقدار میں کمی ہوتی رہے تو اور کوئی علاج کار گر نہ ہو تو پھرآپریشن کرکے تلی کو نکال دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پلیٹلٹس کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے۔ اگر سیٹرائیڈ دوائیں بھی کارگر نہ ہوں تو مدافعانی نظام کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے رٹوکوسین نامی دوا دیتے ہیں جس سے بعض صورتوں میں افاقہ تو ضرور ہوتا ہے۔ لیکن اس طرح کی دوائوں کے مضر اثرات بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اور بھی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت یہ ہے کہ شفاء من جانب اللہ ہے۔ اللہ چاہیں توپپیتا کے پتوںکے جوس سے بھی ITP اور پلیٹلٹس کم ہونے کی دوسری وجوہات کو ختم کر سکتے ہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن