بحیثیت قوم ہم ایک نہ ختم ہونے والی ہیجانی کیفیت سے گزر رہے ہیں اور قومی امور پر متضاد آراء کے حامل ہیں۔ ہم حقائق جانے بغیر ہی اپنی رائے قائم کر دیتے ہیں ۔ گزشتہ 70سالوں سے ہم جمہوریت اور آمریت کے درمیان معلق ہیں۔ ہم نہ تو جمہوریت سے خوش ہیں نہ ہی آمریت سے۔ جب ہم آمریت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں تب ہم جمہوریت کی جنگ لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور جب آمر حکمرانوں سے نجات حاصل کرتے ہیں تو جمہوری ادوار میں داخل ہونے کے بعد ہم جمہوری نظام کے قواعد پر عملدرآمد میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہم اندرونی خلفشاروں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگ جاتے ہیں اور بالآخر جمہوریت سے بیزار ہونے لگتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جو اقتدار سے باہر رہ جاتے ہیں وہ کیونکر اپنی صلاحیتوں سے نظام کو غیر مستحکم کرنے میں صرف کرتے ہیں؟
یہ اندرونی خلفشار نظام کو لپیٹنے کاآغازہے جو ہمارے ملک کیلئے بے حد خطرناک ہے۔ اگر جمہوریت کے طے شدہ اصولوں پر عمل نہیں کیا جائیگا تو جمہوریت بدترین آمریت کا روپ دھار لے گی۔ آئیے جمہوریت اور سیاسیات کے درمیان فرق کو سمجھیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جمہوریت طرز حکمرانی کی بہترین شکل ہے۔
عوام کے منتخب نمائندے جمہوری اقدار کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومت چلاتے ہیں ۔ ہم نے صدارتی اور پارلیمانی دونوں ہی طرز حکومت آزمائے ہیں حتیٰ کہ ایوب خان کا بنیادی جمہوریتوں(بلدیاتی نظام) کا نظام بھی دیکھا ہے لیکن ہم حقیقی جمہوریت قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ آج ہم ایک بار پھر صدارتی نظام کی بازگشت سن رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی نظام عام آدمی کو سکون فراہم نہ کر سکا۔ قانون سازی جمہوریت کا بنیادی ستون ہے جس کے ذریعے قانون کی حکمرانی اور معاشرے کے تمام شعبوں کے مفاد کو یقینی طور پر عملی شکل دے سکتے ہیں۔ عوامی نمائندوں، عدلیہ اور افسرشاہی کے فرائض کو متعلقہ قواعد کے تحت منضبط کیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ قانون سازی کا حق رکھتی ہے۔ حکومت اکثریت سے بنتی ہے جس کی وجہ سے اسے عوام الناس کے بہترین مفاد میں موزوں فیصلے کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو مستقل طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور اب تو وہ ایک سالانہ بجٹ پاس کرنے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایوان محض بحث و مباحث کی آماجگاہ بن چکا ہے جس میں گلیوں کی سطح پر ہونیوالی بات چیت کی جاتی ہے۔ چند ممبران اپنی متعلقہ قیادت کو خوش رکھنے کیلئے بدتمیزی پر مبنی اندازگفتگو اختیار کرتے ہیں
لوگوں کیلئے یہ باعث تعجب ہو گا کہ امریکی کانگریس یا سینیٹ کے برعکس ہماری حکومت کیلئے کوئی بھی قرارداد یا توجہ دلائو نوٹسز اور اہم باہمی فیصلے وغیرہ لازمی نہیں ہیں۔ ایوانوں پر بھاری اخراجات کے باوجود ، پارلیمان ایک عام آدمی کیلئے کوئی خاطر خواہ بہتری لانے میں ناکام ہو چکی ہے ، کیونکہ وزیراعظم خود کو پارلیمان کے سامنے جوابدہ تصور نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ ہماری طرز حکومت معیاری نہیں ہے اور مقامی اور غیر ملکی قرضوں کے انبار اور مہنگائی کی تشہیر کے ساتھ ناکام خارجہ پالیسی ہے جو عام آدمی کو تباہ کر رہی ہے۔ عوام حقیقی طور پر مایوس ہیں اور نظام میں زوال پذیری سے پریشان ہیں اور یہ سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ کس قسم کی سیاست ہے جس میں متوسط طبقے کا یا ایک تعلیم یافتہ آدمی سینیٹ یا پارلیمان کا رکن نہیں بن سکتا ہے؟
ایک عام آدمی اب ہماری جمہوریت کو ’’بادشاہت‘‘ سمجھتا ہے کیونکہ ہماری جمہوریت اب بھی ’’اجارہ دار ی سیاست‘‘ کے قدیمی آبادکاری کے اصولوں پر مبنی ہے، اور ایک عام آدمی کیلئے ایک فیصلہ ساز انسان بننے کا کوئی موقع نہیں ہے اور یہی وجہ ہے جس نے لوگوں کو مزید پریشان کیا ہوا ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اگرچہ برطانوی سلطنت رخصت ہو چکی ہے اور محض ’’سلطنت برطانیہ کی حکومت‘‘ سے ’’بادشاہی جمہوری حکومت‘‘ کی تبدیلی ہو کر آبادکاری کی نوعیت کی طرز حکومت وہی رہا ہے ، اور یہ نظام اب بھی مشترک تعزیرات کے ساتھ سلطنت برطانیہ کے تحت ایک عام آدمی کے ساتھ سلوک کر رہا ہے اور پرانی قانون سازی ایک مجبور شخص پر جبری حکمرانی کا ارادہ رکھتی ہے ۔
ہم ہر انتخابات میں ناخواندہ رائے دہندگان کا استحصال کرتے ہیں، بہتری کے لئے تبدیلی کا وعدہ کرتے ہیں ، مگر وہ اپنے بنیادی حقوق کی محرومی کی بدترین صورت میں تبدیلی حاصل کرتے ہیں وہ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بھی قابل نہیں ہیں، مہنگائی کا فروغ ہے اور زیادہ بیماریوں کا سامنا ہے ، کیونکہ ہم عوام کیلئے ایک مناسب حفظان صحت کے قومی نظام کو وضع کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں ، گائوں میں ایک عام آدمی اپنے بچوں کو ننگے پائوں دیکھتا ہے اور انکی آنکھوں میں پریشانی محسوس کی جا سکتی ہے ، پس اسی لئے روشن مستقبل سے محروم بچے مجرم یا دہشتگرد بننے کا انتخاب کرتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ ہمارا موجودہ نظام ایک عام آدمی کو ماسوائے کھوکھلے نعروں کے قانونی سہولیات اور مطلوبہ حقوق دینے میں ناکام ہو چکا ہے۔ طاقت کی جاری موجودہ جدوجہد ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی نے ایک آدمی کو مایوس اور پریشان کر دیا ہے ، جبکہ حکومت خود پریشان اور بے سمت ہے بلکہ ایک عام آدمی سے زیادہ پریشان ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم رفتہ رفتہ پریشان رہنا جاری رکھیں گے اور طاقت کی حرص سے لڑنے میں اس مقام کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو گی۔ہماری سیاست منافقت سے بھرپور ہے اور جمہوریت کا یہ نمونہ طاقتور کیلئے ایک ہتھیار بن گیا ہے تاکہ غریب کی اکثریت کا استحصال کرتے ہوئے اقتدار میں دوبارہ آتے رہیں، طاقتور اپنے خود خدمتی مفادات کے ساتھ اقتدار کا تسلسل جاری رکھیں گے ۔ اقتدار میں رہنے والے ہر آمرانہ فیصلے کو جمہوری طور سے اٹھانے کی کاوش جاری رکھیں گے۔ ہمیں خواب غفلت سے جاگنا چاہئے اور امیروں کیلئے نہیں، بلکہ ایک عام آدمی کے مطلوبہ مفادات کیلئے ایک حقیقی جمہوریت کو موقع دینا چاہئے۔
نوٹ: تمام آراء مصنف کی اپنی ہیں ۔ان کی آراء سے متفق ہونا یا جماعت کے تناظر اور رائے کا ان سے منعکس لازمی نہیں۔