مفادات کی جنگ۔۔۔!! 

 پاکستان میں حالیہ اپوزیشن کی شروع ہونے والی تحریک جس کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا ہے کا پہلا جلسہ گوجرانوالہ ، دوسرا کراچی اور اتوار کے روز تیسرا جلسہ کوئٹہ میں ہو چکا ہے ۔ پاکستانی اپوزیشن کی سیاست کا سجا لکی ایرانی سرکس جو دائیں بازو کی سیاست ، بائیں بازو کی سیاست ، انقلابی سیاست ، مذہبی سیاست ، لبرل سیاست کا ملا جلا ایک ایسا چوں چوں کا مربہ ہے جس کا ہر داعی اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ پی ڈی ایم کے سٹیج سے ان تین جلسوں میں ایسی ایسی تقریریں سننے کو ملیں جس میں کبھی بد زبانی اور گالی گلوچ نظر آیا تو کبھی اپنے وہ ادارے جو اس ملک کی سلامتی کے محافظ ہیں انکے خلاف الزام تراشیاں سننے کو ملیں ۔ کبھی کسی نے آ کے اردو زبان کیخلاف نعرہ بازی شروع کی تو کسی صاحب نے آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا دیا ۔ عوامی مسائل سے لاتعلق نظر آتے ان تمام جماعتوں کے انقلابی لیڈر صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کی خاطر ملکی سلامتی کو دائو پہ لگائے بیٹھے ہیں ۔  گیارہ جماعتوں کا یہ اتحاد جسکے سجائے گئے اس سیاسی میلے میں سٹیج پہ بیٹھے اور صدارت کرتے جلسوں میں جہاں پہلے مولانا فضل الرحمان نظر آتے ہیں جو کہ اس اتحاد کے صدر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جو اس سے قبل تمام جمہوری اور آمریتی پارٹیوں کے ساتھ شراکت اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔  اور پھر انکے ایک طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ خود اقتدار کا حصہ بھی ہے اور سندھ کی عوام کی ڈور ان کے ہاتھ میں ہے کی نمائندگی بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں جن کو سیاست میں قدم رکھے اب دس بارہ سال ہو گئے ہیں اور ہر بار انہیں ایک نئے انداز میں اس طرح لانچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید اب کی بار عوام کے دلوں میں کوئی جگہ بنا سکیں لیکن ہر بار ناکام ہو جاتے ہیں اب پی پی پی کو کون سمجھائے کہ بھٹو نام رکھنے سے بھٹو بن نہیں جایا کرتے اور پچھلی کئی دہائیوں سے سندھ پہ حکمرانی کرنے والا یہ خاندان آج وفاق کیخلاف کھڑے ہونے سے پہلے اپنی کارکردگی کا تو عوام کو حساب دے ۔ اندرون سندھ اگر کہیں ترقی نظر آتی ہے تو وہ صرف گڑھی خدا بخش میں مزار اور اسکے احاطے میں جہاں رنگ ، روشنی اور خوشبوئیں ہیں اس مزار کی دیواروں کے باہر اگر کبھی جھانک کے دیکھیں تو انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ میں پانی پیتے ہوئے نظر آتے ہیں ، آج بھی سب سے زیادہ غذائی قلت سے شیر خوار بچوں کی اموات تھراور اندرون سندھ میں ہی ہوتی ہیں، صحت کے ساتھ ساتھ اگر تعلیم کے حوالے سے انکی کارکردگی دیکھی جائے تو اس سے بھی زیادہ مایوس کن ہے اور پچھلے بارہ سال سے کراچی کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والی پی پی پی کی کراچی میں کارکردگی کے ثبوت کیلئے صرف ایک بارش ہی کافی ہے۔بلاول بھٹودر حقیقت اس وقت اپنے والد کی کرپشن کے پیسے کوبچانے کیلئے میدان عمل میں ہیں جن کے پیسے کبھی کسی فالودے والے کے اکاونٹ سے نکلتے ہیں تو کبھی کسی کریانے والے کے ۔ پھر مولانا صاحب کی دوسری طرف مریم صاحبہ جو کہ اپنے آپ کو انقلابی کہلوانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف ہیں اور ان کا انقلاب بھی انکے مفادات کی طرح کا ہے جو عدالتوں سے ریلیف ملنے پہ سو جاتا ہے اور جہاں ان کے والد کی کرپشن اور ان کی جائیدادوں پہ سوالیہ نشان اٹھتا ہے تو ان کا انقلاب بھی ووٹ کو عزت دو کے نام پہ انگڑائیاں لینا شروع کر دیتا ہے ۔ مریم نواز کے والد پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم اور چچا متعدد بار پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی رہنے اور وسائل کا بے دردی سے استعمال اور کرپشن سے دنیا پھر میں جائیدادیں بنانے کے بعد آج اسی حلف کے ساتھ بد عہدی کرتے ہوئے جلسوں میں پاکستان اور پاکستان کے دفاعی اداروںکو دنیا بھر میں بدنام کر رہے ہیں ۔ اپوزیشن کی شعبدہ بازیوں کے ساتھ ساتھ حکومت کی تماش بینیاں بھی اپنے عروج پہ ہیں ۔ حکومت کی ناقص کارکردگی اور وزراء کی غیر سنجیدگی عام آدمی کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہے ۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے لوگوں کیلئے جینا مشکل بنا دیا ہے ۔ آج ہمارے سیاست دانوں نے ملک کو پھر اس موڑ پہ لا کھڑا کیا ہے جہاں حکمرانی کا ا ہل تو ہر کوئی اپنے آپ کو سمجھتا ہے لیکن عوام کے درد کا مداوا کہیں نہیں ۔ پاکستان کو جس نہج پہ پہنچا دیا گیا ہے وہ موجودہ حالات کے تناظر میں مزید کسی بد نظمی اور انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے اداروں کو سنبھل کے چلنا ہو گا اور ان عناصر پہ گہر ی نظر رکھنا ہو گی جو ملک کی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں دشمن کب سے ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے گھات لگائے بیٹھا ہے اور سب حکمرانوںکو بھی مل کے سوچنا ہو گا کہ کہیں ہم اس مفادات کی جنگ میں اور ا نا اور لڑائی کے کھیل میں ایسا نہ کوئی نقصان کر بیٹھیں جس کا مداوا ممکن نہ ہو ۔ 

ای پیپر دی نیشن