چمگادڑیں بھی بیماری میں سماجی دوری اختیار کرلیتی ہیں، تحقیق

امریکا میں کی گئی نئی تحقیق میں یہ بات سامنےآئی ہے کہ ویمپائر چمگادڑیں جب بیمار ہوتی ہیں تو وہ سماجی دوری اختیار کرلیتی ہیں۔

امریکی سائنسی جرنل بی ہیورل ایکولوجی میں شائع تحقیق کےمطابق ریسرچرز نے31 ویمپائر چمگادڑوں پر تجربہ کیا۔

تحقیق میں شامل چمگادڑوں کو جنگل سے پکڑا گیا اور ان میں سے کچھ کو مدافعانہ نظام کو چیلنج کرنےوالا انجیکشن دیکر انکےمقام پر چھوڑ دیا گیا۔

چمگادڑوں کی آبزرویشن میں یہ بات سامنےآئی کہ بیمار چمگادڑوں نے ساتھی چمگادڑوں سے دوری اختیار کی۔

چین اور سنگاپور کی جانب سے ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چمگادڑیں کیسے ڈی این اے سینسینگ کو استعمال کرتی ہیں۔

چمگادڑوں میں اڑنے کی بے تحاشا توانائی موجود ہوتی ہے، ان کے ڈی این اے میں کسی بھی بیماری سے لڑنے کے لیے زیادہ اینٹی باڈیز پائی جاتی ہیں جو ان کے جسم میں سب سے زیادہ خطرہ پیدا کرنے والی علامت سوجن کو ہونے سے روکتی ہیں، محققین کے مطابق اسی خصوصیت کی وجہ سے چمگادڑیں موذی وائرسز ہونے کے با وجود زندہ بچ جاتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی ممالک میں چمگادڑیں مارکیٹوں میں باقاعدہ فروخت ہوتی ہیں، ان کو غذا کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے جبکہ چمگادڑوں سے پھیلنے والے زیادہ تر وائرس میں پہلے جانور سے انسان اور پھر دوسرے مرحلے میں انسان کے چہرے کے اعضاء یعنی ناک، منہ، آنکھ سے دوسرے انسان میں بیماری منتقل ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ڈسزاک کے مطابق موزی بیماریوں اور ان وائرس سے بچنے کے لیے ایسے جانوروں کی فروخت پر روک تھام کرنی ہوگی جن سے بیماریاں پھیلتی ہیں، ماہرین نے ان جانوروں کو دہشتگردوں جتنا ’خطرناک‘ قرار د یا ہے۔

ای پیپر دی نیشن