آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو؟

Oct 28, 2021

گزشتہ چند روز سے ایک مختصر دورہ پر وطن عزیز میں ہوں۔ اس انتہائی مختصر دورہ کی بنیادی وجہ اپنی نئی کتاب ’’ولایت نامہ‘‘ کی گورنر ہائوس لاہور میں تقریب رونمائی میں شرکت، ملک کی مجموعی معاشی و اقتصادی صورتحال اور ایک عام دیہاڑی دار آدمی کے مسائل کا قریب سے جائزہ‘ روزافزوں بڑھتی مہنگائی Covid-19‘ ڈینگی اور کانگو فیور سمیت حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو دیکھنا ہے۔ 
’’گورنر ہائوس‘‘ میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی صدارت میں ایلاف کلب کے زیراہتمام ہونیوالی اس شاندار تقریب کی روئیداد آئندہ کالم میں انشاء اللہ۔ مگر آج پھر اپنا وہی قومی رونا رونا ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے روتا چلا آرہا ہوں۔ 2018ء سے سے پاکستان پر لگائی ایف اے ٹی ایف پابندیوں کو پورا کرتے کرتے 2021ء کے ماہ اکتوبر میں یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اس مرتبہ پاکستان  کوجو 27 نکات میں سے 26 پورے کر چکا ہے‘ گرے لسٹ سے نکال دیا جائیگا کہ معاملہ صرف ایک پوائنٹ کی کمی کا رہ گیا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان کی تمام تر کاوشوں اور دی گئی معاشی قربانیوں کے باوجود اس بار بھی پابندیاں برقرار رکھی گئی ہیں۔ جو بلاشبہ فیٹف کے بعض ممبر ممالک کی سوچی سمجھی سازش کا واضح ثبوت ہے۔ برطانیہ میں بسنے والے اعشاریہ 6 ملین پاکستانیوں کو مکمل یقین تھا کہ ایک نقطے کا معاملہ اس مرتبہ یقینی طور پر حل ہو جائیگا۔ مگر فیصلہ کرنے والوں نے آئندہ اپریل 2022ء میں منعقدہ اجلاس تک پابندی بڑھا دی ہے۔ مجھے فروری 2020ء اور پھر مارچ میں فیٹف پر لکھے اپنے متعدد کالموں پر اپنے ایک سینئر سٹیزن ’’خالص‘‘ گورے ماہر معاشیات سے اس موضوع پر ہونیوالی گفتگو پھر یاد آنے لگی ہے جس میں اس نے ایک مخصوص مسکراہٹ کے بعد یہ کہا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے محض فیصلوں کو سمجھنا ضروری نہیں۔ اصل معاملہ متاثرہ ملک کی جغرافیائی حیثیت‘ معاشی و اقتصادی صورتحال اور عالمی تعلقات کا جائزہ بھی ہوتا ہے۔ فیٹف جب پوائنٹ پر غور کرتا ہے تو اسے ہر پہلو سے نکات پر غور کرنا ہوتا ہے۔ اجلاس میں لابیاں بھی کام کرتی ہیں‘ متاثرہ ممالک کا ریکارڈ اور فیٹف کی دی گئی ہدایات کو سب سے زیادہ مقدم رکھا جاتا ہے اس لئے محض اس خوشی میں مبتلا ہو جانا کہ ایک پوائنٹ کی پابندی کسی بھی آئندہ اجلاس میں ہٹالی جائے گی‘ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ 
میرے اس ’’خالص‘‘ گورے دوست نے یہ بھی کہا تھا کہ جو ممالک ایک بار فیٹف میں آجائیں‘ ان پر لگی پابندیوں کو ’’فٹافٹ‘‘ ہٹانے والا فارمولہ ہرگز لاگو نہیں ہوتا۔ ان پر لگائی گئی پابندیوں کا انکے معاشی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جاتا ہے۔ گرے اور بلیک کے عوامل بھی دیکھے جاتے ہیں۔ تم پرامید ہو کہ ایک پابندی اکتوبر اجلاس میں ختم ہو جائیگی مگر میرا تجربہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ ایک پابندی مزید طوالت بھی اختیار کر سکتی ہے۔ فریڈ نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا تھا۔ 
فریڈ کو ’’خالص گورا‘‘ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں اقتصادی امور کے ایک عالمی ادارے میں بطور سربراہ خدمات بھی سرانجام دے چکا ہے اس لئے ترقی پذیر ممالک پر لگائی گئی پابندیوں کا اسے بخوبی ادراک ہے۔ اب سوچتا ہوں فریڈ نے درست ہی کہا تھا۔ پاکستان کو اب کی بار صرف ایک پوائنٹ پر گرے لسٹ سے باہر نہ نکالنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بعض دشمن لابیاں اب بھی پاکستان کیخلاف کام کررہی ہیں جس کا بھارت بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسی حوالے سے ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد نے فیٹف کی سفارشات پر منی لانڈرنگ‘ ہنڈی اور غیرقانونی کرنسی ایکسچینج والوں کیخلاف سنجیدہ کارروائی کرنے کیلئے خصوصی سکواڈ قائم کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر کے زیرنگرانی جلد مثبت نتائج کی فراہمی کی توقع ظاہر کی تھی جس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی مگر اب گزشتہ ہفتے پیرس میں ہونیوالے ورچوئل اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلیئر نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ تو نہیں کیا جائیگا مگر گرے لسٹ کی پابندیاں آئندہ فروری 2022ء تک بدستور قائم رہیں گی‘ پاکستان کو  ایک مرتبہ پھر غیریقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ 
غور طلب نقطہ یہ کہ گھانا اور ماریشش کو اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکال دیا گیا جبکہ دوسری جانب اردن‘ مالی اور ترکی کو اس بار گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس کا کہنا ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں مانیٹرنگ کا نظام بہتر ہوا ہے۔ 7 میں سے 4 نکات بھی پاکستان نے پورے کر لئے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ پاکستان کو ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے جس کی آئندہ فروری تک نگرانی کی جائیگی۔ 
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا 
فیٹف کے صدر کے اس فیصلے کی اگر سادہ ترین الفاظ میں وضاحت کی جائے تو بس! وہ کچھ یوں کہ ’’آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہو‘‘۔ پاکستان ریکوڈک کیس جیت گیا‘ Covid-19 پر انتہائی مختصر وقت پر قابو پایا۔ عالمی ماحولیاتی نظام میں اعلیٰ کردار ادا کیا مگر یہ کسی کو نظر ہی نہیں آرہا۔ اسے کہتے ہیں ’ہپوکریسی‘۔ 

مزیدخبریں