دنیا بھر میں مواصلات کے محکمے کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ قومی اور بین الاقوامی رابطوں کا اہم ذریعہ ہے۔ بڑی شاہراہیں ہوں، سڑکیں ہوں یا ڈاک کا نظام ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اس نظام کا فعال اور تیز ترین ہونا ضروری ہے۔ اس وقت رابطوں کے تیز ترین ذرائع ای میل، موبائل فون، وٹس ایپ وغیرہ ہیں لیکن یہ سہولتیں دور دراز کے گاؤں دیہاتوں میں ابھی بھی یہ سہولتیں پوری طرح دستیاب نہیں ہیں۔ (ن) لیگ کی حکومت سے ہمیں لاکھ اختلافات ہوں لیکن موٹروے سمیت خاص طور پر پنجاب میں سڑکوں، پلوں اور زیرزمین گزر گاہوں کا جال بچھایا گیا۔ انڈر پاسز اور اوورہیڈ برجز سے ٹریفک کا رش کم ہوا اور اس کی روانی میں مدد ملی۔ پنجاب کی ترقی کے سندھ کے لوگ اور (ن) لیگ کے مخالفین بھی معترف ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے گزشتہ تین سال میں کوئی بڑی شاہراہ یا پل وغیرہ نہیں بنائے۔ سڑکیں اور پل بنانا تو درکنار ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت بھی نہیں کروائی گئی۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین بھی گزشتہ حکومت کے منصوبے ہیں جن روزانہ لاکھوں لوگ آمد و رفت کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔
اس وقت میرا موضوع سڑکیں اور پل نہیں بلکہ ڈاک کا نظام ہے۔ مواصلات کے جدید ذرائع کے باوجود محکمہ ڈاک اور ترسیل کا نظام کی اپنی اہمیت ہے۔ موجودہ دور حکومت کے تین سال میں مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ کرونا وبا سے عالمی سطح پر تباہ کاریاں بھی ہے لیکن کچھ سہولیات ایسی ہوتی ہیں جن کی آسان اور سستے داموں فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ضروریات زندگی کے علاوہ ڈاک کی ترسیل کی سہولت بھی ان میں شامل ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے خطوط، دستاویزات، کتب و رسائل اور دیگر اشیاء کی ترسیل کے لئے محکمہ ڈاک پر انحصار کرتی ہے۔ ریاستیں ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن سے اس طرح کی سہولتیں سبسڈی کے ساتھ عوام الناس کو فراہم کرتی ہیں۔ ڈاک کے نظام کا بھی ایک جذباتی اور جمالیاتی پہلو ہے خط لکھنے، خلط ملنے، ڈاک بابو، ڈاک بنگلہ، خوشی غمی، کتنے حساس پہلو اس محکمے سے وابستہ اور ہماری تاریخ اور ادب کا اہم حصہ ہیں۔
مواصلات کے جدید ذرائع کے باوجود ڈاک کا نظام عوام کی اکثریت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت میں جو وزراء میڈیا پر آکر بڑے جوشیلے انداز میں خالفین پر برستے ہیں اور اسمبلی میں اُچھل اُچھل کر سیاسی مخالفین پر بجٹ کی کاپیاں یا جملے پھینکتے ہیں ان میں ایک وزیر مواصلات مراد سعید بھی ہیں۔ وہ نوجوان ہیں۔ ان کا خون جوش مارتا ہوگا لیکن بہتر ہوتا کہ وہ اپنے جوش و خروش اور صلاحیتوں کو اپنے محکمے کی بہتری اور عوام کو سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کرتے۔ لیکن انہوں نے آتے ہی عام ڈاک کا جو لفافہ 8 روپے کا تھا اس کی قیمت میں ایک دو روپے نہیں پورے 12 روپے کا اضافہ کر کے 20 روپے کا کر دیا۔ اس تناسب سے محکمہ ڈاک کی تمام سروسز کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا جس سے عوام کی ایک بنیادی سہولت کا استعمال مشکل بنا دیا گیا ہے۔ ڈاک کے ذریعے کوئی بھی چیز بھجوانی مشکل بنا دی گئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان فروغ مطالعہ کی کوششوں اور اس سے وابستہ افراد کو ہوا ہے۔ ہمارے ہاں لکھنے پڑھنے کا رجحان پہلے ہی کم ہو چکا ہے۔ ڈاک کے نرخوں میں اضافے سے یہ شعبہ مزید متاثر ہوگا۔ وہ بچے یا بڑے جو اخبارات و رسائل کو ڈاک کے ذریعے اپنی تحریریں بھجواتے تھے انہیں اب مہنگے ٹکٹ لگانے پڑتے ہیں۔ اس دورمیں جب بچے موبائل پر ہر وقت مصروف رہتے ہیں ک وئی بچہ کسی رسالے کے لئے خط، مضمون یا کہانی لکھتا ہے تو اس کو چالیس پچاس روپے کے ڈاک ٹکٹ کا خرچ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جو ادیب اس دورمیں بھی تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں ان کو اپنی کتاب کسی کو بھجوانے کے لئے بعض اوقات کتاب کی قیمت سے بھی زیادہ خرچہ کرنا پڑتا ہے۔ یوں کتاب دوستی جو کسی بھی معاشرے کے سماجی ارتقائ، علم و دانش میں اضافے کے لئے ضروری ہے دم توڑتی جائے گی۔ ہماری لائبریریاں پہلے ہی ویرانی کا منظر پیش کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں کئی وزیروں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے قومی ادارے برباد کیے کسی نے اپنی ٹرانسپورٹ کی ترقی کے لئے ریلوے اور بسوں کے نظام کو تباہ کیا۔ کسی نے کورئیرر کمپنیوں سے بھاری کمیشن لے کر محکمہ ڈاک کی بربادی کا سامان کیا۔
اگر ہمارے حکمران اور ارباب اختیار ’’سعید فیصلے‘‘ کریں تو قوم کی کشتی منزلِ مراد تک پہنچ سکتی ہے … اور نامرادی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔