ورلڈ کپ کے لئے T-20میچوں کا جو سلسلہ جاری ہے اس کا انجام کچھ بھی ہوذاتی طورپر مجھے اس میں خاص دلچسپی نہیں۔ حیران کن بات مگر اس تناظر میں یہ بھی ہے کہ کافی عرصہ سے کامل طورپر اکتائے ہوئے دل نے اتوار کے بعد منگل کی شام بھی اس ضمن میں ہوئے ایک اور میچ کو آغاز سے اختتام تک اپنے کمرے میں اکیلے بیٹھ کر بہت شوق سے دیکھا ہے۔
پاکستان کے نسبتاََ نوجوان اور کم تجربہ کار کھلاڑیوں نے جس مؤثرانداز میں اتوار کی شام بھارت کو ہرایا تھا اس نے مجھے خوش گوار حیرت میں مبتلا کیا۔ کرکٹ کے رموز سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی جبلی طورپر خوش گوار حیرت یہ سوچتے ہوئے محسوس ہوئی کہ پاکستان کی ٹیم ایک بہترین حکمت عملی کو نہایت محنت اور لگن سے بروئے کر لاتی رہی۔نیوزی لینڈ کے خلاف ہوا میچ بنیادی طورپر میں نے یہ طے کرنے کے لئے دیکھا کہ مذکورہ حکمت عملی اپنی جگہ برقرار ہے یا نہیں اور اتوار کی شام کہیں خوش بختی والا تکا تو نہیں لگ گیا تھا۔ منگل والا میچ دیکھنے کے بعد نہایت اعتماد سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ مذکورہ حکمت عملی اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔ ان دنوں جو ٹیم ہے وہ سٹار ہوئے چند کھلاڑیوں کی ہرگز محتاج نہیں۔ کامل یکسوئی کے ساتھ میدان میں اترتی ہے اور ہمارا کپتان بہت ہوشیاری سے یہ طے کرتا ہے کہ میچ جیتنے کے لئے کونسے کھلاڑی کو کس وقت استعمال کرنا ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے حال ہی میں سکیورٹی کے بہانے میدان میں اترنے کے باوجود ایک میچ پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔قومی جذبات کو اس کے رویے نے یقینا بہت دھچکا لگایا۔ مذکورہ تناظر میں منگل کی شام حساب چکانا بھی لازمی تھا اور ہمارے کھلاڑیوں نے میچ کے آخری لمحات میں تابڑ توڑ چوکوں اور چھکوں کی مدد سے اسے چکادیا۔
ارادہ باندھا تھا کہ بدھ کی صبح اٹھ کر کالم لکھتے ہوئے اس کے آغاز میں نیوزی لینڈ کی شکست کے ذکر کے بعد کسی دیگر موضوع کی جانب بڑھ جائوں گا۔اس ضمن میں شاید قارئین کو یہ بھی یاد دلاتا کہ حال ہی میں ایک اہم تعیناتی کے حوالے سے میڈیا میں جو مخمصہ جاری تھا اس کا آغاز ہوتے ہی فقط اصرار کیا تھا کہ بالآخر اسی نام کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوگا جس کا اعلان آئی ایس پی آر کی جاری ہوئی ایک پریس ریلیز کے ذریعے رواں مہینے کے پہلے ہفتے میں کردیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ہوئی تاخیر کی بابت سو طرح کی کہانیاں پھیلیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں بٹے معاشرے میں حتمی اعلان ہوجانے کے باوجود مختلف النوع تعبیریں اب بھی گھڑی جائیں گی۔ میری دلی تمنا ہے کہ میں تاخیر کو کسی منتخب دفتر کے وقار کو اجاگر کرنے کی کاوش ٹھہراسکتا۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کا کئی برسوں تک شاہد ہوتے ہوئے مگر یہ کہنے کے جواز ڈھونڈنے میں خود کو ناکام محسوس کررہا ہوں۔عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کے بعد مجھے اقتدار کے ایوانوں تک مؤثر رسائی ہرگز میسر نہیں ہے۔ سنی سنائی سے رائے بنانا لہٰذا میرے لئے بہت مشکل ہے۔حتمی فیصلہ سازی کے عمل سے لاعلمی کے اعتراف پر ہی اکتفا کرنے کو مجبور ہوں۔
T-20میچوں کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی بابت ہمارے ٹی وی چینلوں پر خصوصی نشریات بھی ہورہی ہیں۔جن ماہرین کو کرکٹ کی سمجھ ہے وہ کوئی میچ شروع ہونے سے قبل اور اس کا فیصلہ ہوجانے کے بعد اپنے اپنے انداز میں تجزبے پیش کرتے ہیں۔میں اگرچہ ایک عالمی چینل پر میچ دیکھنے کے بعد اپنا ٹی وی بند کردیتا ہوں۔بدھ کی صبح اٹھ کر ٹویٹر پر اخبار میں چھپا کالم پوسٹ کررہا تھا تو یہ بھی دریافت ہوا کہ وہاں ایک ٹرینڈ چل رہا ہے۔پی ٹی وی کا سنا ہے کہ کوئی سپورٹس چینل بھی ہے۔وہاں کی خصوصی نشریات میں کرکٹ کے ایک بہت مشہور ہوئے کھلاڑی شعیب اختر کی میزبان نے غالباََ توہین کی تھی۔شعیب اختر کے مداحین اس کی بابت چراغ پا نظر آئے۔ تجسس نے وہ کلپ دیکھنے کو مجبور کردیا جو مذکورہ قضیہ کا باعث ہوئی۔
اس کلپ کی بابت گفتگو سے قبل یہ اعتراف کرنا لازمی ہے کہ جن دنوں میں سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ متحرک ہوا کرتا تھا تو شعیب اختر اپنے انداز گفتگو کی وجہ سے اکثر میرے پھکڑپن کی زد میں آجاتا۔میرے چھوٹے بھائیوں جیسا مگر ایک دوست ہے۔نام ہے اس کا علی گیلانی۔یاد رہے کہ اس کی یوسف رضا گیلانی سے کوئی رشتے داری نہیں۔غیر سیاسی گیلانی ہے۔ کرکٹ کا دیوانہ بھی۔ عمران خان صاحب جن دنوں شوکت خانم ہسپتال کے لئے چندہ جمع کررہے تھے تب وہ اس ضمن میں تیار ہوئی ٹیم کا اہم رکن بھی تھا۔اسے مہمان نوازی کی علت لاحق ہے۔جن دنوں اسلام آباد میں مقیم تھا تو اس کی دعوت میں شامل نہ ہونے کی مجھ میں ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔اسی کی دی ہوئی ایک دعوت میں آج سے چند برس قبل شعیب اختر بھی مدعو تھا۔اسے دیکھتے ہی خیال آیا کہ وہ میرے پھکڑپن پر خفگی کا اظہار کرے گا۔اس دعوت سے قبل میں شعیب سے کبھی نہیں ملاتھا۔مجھے دیکھتے ہی لیکن وہ ازخود میرے پاس آیا اور بہت احترام سے نصرت بھائی کہتے ہوئے ہاتھ ملایا۔میں اپنے رویے پر شرمسار ہوگیا۔اس کا رویہ پرخلوص طورپر مہذب محسوس ہوا۔
وہ صاحب جنہوں نے پی ٹی وی سپورٹس کے شو میں شعیب اختر سے رعونت بھری بدکلامی برتی ہے ان کا نام غالباََ نعمان ہے۔ مجھے ٹی وی سکرین پر رونما ہونے کا شوق کبھی لاحق نہیں رہا۔ محض اتفاق یہ ہوا کہ جب چٹھی جماعت کا طالب علم تھا تو ریڈیو پاکستان لاہور نے اپنے سکول براڈ کاسٹ پروگرام کے لئے ایک کوئز شو میں شمولیت کے لئے رنگ محل مشن ہائی سکول سے کچھ نام مانگے۔میرا نام بھی ان میں شامل ہوگیا۔ یہ شو جمعہ کے دن ہوتا تھا۔ روایت یہ تھی کہ جو طالب علم وہاں کامیاب ہوتا وہ دوسرے جمعہ کے شو میں بھی شریک ہوتا۔ میری خوش بختی رہی کہ میٹرک کا امتحان دینے تک میں اس شو میں مسلسل شریک ہوتا رہا۔
ہر ہفتے ریڈیو پاکستان لاہور جانے کی وجہ سے مجھے بہت نامور آوازوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ان دنوں ریڈیو کے پچھواڑے میں پی ٹی وی کا سینٹر بھی قائم ہوچکا تھا۔ میں اپنے بچپن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں بھی چلاجاتا۔پی ٹی وی کو کامیاب ترین ادارہ بنانے والے بے تحاشہ افراد کے انہماک اور لگن کو بھی لہٰذا بہت قریب سے دیکھا۔ان کی بدولت جبلی طورپر یہ بھی جان لیا کہ کیمرہ اور مائیک کے بنیادی تقاضے کیاہوتے ہیں۔
ان تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ نعمان نام کا اینکر کسی بھی صورت مائیک یا کیمرے کے روبروبیٹھنے کے قابل نہیں۔اسے ہرگز خبر نہیں کہ کیمرے کے روبرو کندھے جھکاکر نہیں بیٹھا جاتا۔ آواز کا زیرو بم بھی ہوتا ہے۔ دیکھنے والوں کوا پنی جانب متوجہ رکھنے کے لئے الفاظ کی ادائیگی چہرے کے تاثرات کے ساتھ ہی مؤثر تر بنائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک شے ہوتی ہے جسے Stressاور Pauseکہا جاتا ہے۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ کسی لفظ کو نیچے آواز سے خطِ کشیدہ کھینچتے ہوئے اسے نمایاں کرنا اور فقروں کے درمیان تجسس اکساتے وقفے۔موصوف ایسی مبادیات کے بارے میں قطعاََ پیدل ہیں۔ اکثر ان کی گفتگو کے آخری فقرے Dropبھی ہوجاتے ہیں یعنی ناقابل سماعت۔
شعیب اختر ان کے مقابلے میں ٹی وی کیمرے کے روبروبیٹھنے اور بولنے کے ڈھنگ سے جبلی طورپر آگاہ ہے۔کرکٹ کھیلتے ہوئے اس نے نام بھی بنایا ہے۔ وہ ہر حوالے سے عزت واحترام کا مستحق ہے۔اس کے ساتھ بدکلامی کرنے والے میزبان کی مذمت ہر حوالے سے لہٰذا جائز محسوس کررہا ہوں۔