سپہ  سالار غدار تو ملازمت میں غیر معینہ توسیع کی پیشکش کیوں 

اسلام آباد (خبرنگار خصوصی) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا ہے کہ سائفر اور رجیم چینج پر اختیار کیا جانے والا بیانیہ جھوٹا ہے، اداروں اور آرمی چیف پر بے بنیاد الزامات اور تنقید کی جا رہی ہے۔ عمران خان کا نام لئے بغیر ڈی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا سپہ سالار غدار تھا تو انہیں مارچ میں ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت کی توسیع کی پرکشش پیشکش کیوں کی گئی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات کے بارے میں آپ کو کچھ آگاہی دینا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا یہ کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکشن اور رائے میں تفریق کی جاسکے اور سچ سب کے سامنے لایا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کی اہمیت اور حساسیت کی وجہ سے وزیر اعظم پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی طور پر آگاہ کیا گیا ہے بلکہ اس عوامل کا احاطہ کرنا بہت ضرری ہے جن کی بنیاد پر ایک مخصوص بیانیہ بنایا گیا اور اسی جھوٹے بیانیے کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اداروں اور ان کی لیڈرشپ حتی کہ چیف آف آرمی سٹاف پر بھی بے جا الزام تراشی کی گئی اور اس کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم اور اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے۔ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی وجہ شہرت تحقیقاتی صحافت تھی لہذا جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو ارشد شریف نے اس پر بھی متعدد پروگرامز کیے۔ اس حوالے سے انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم سے کئی ملاقاتیں بھی کیں اور ان کے کئی انٹرویوز بھی کیے، جس کے نتیجے میں یہ بات بھی کی گئی  کہ شاید انہیں مختلف میٹنگز کے منٹس اور سائفر بھی دکھایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ قوم سچ جان سکے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک سائفر کا معاملہ ہے تو آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں سابق وزیر اعظم سے خود اس کا تذکرہ کیا تھا جس پر انہوں نے فرمایا یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27 مارچ کو اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا گیا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آچکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 31 مارچ کے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، آئی ایس آئی نے بڑے واضح اور پیشہ ورانہ انداز میں قومی سلامتی کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ یہ پاکستانی سفیر کا ذاتی تجزیہ ہے اور پاکستانی سفیر نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہی لائحہ عمل قومی سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو تجویز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق تحقیقات میں کسی بھی قسم کی سازش کے شواہد نہیں ملے اور یہ شواہد ریکارڈ کا حصہ ہیں، ہم شواہد کو قوم کے سامنے رکھنا چاہتے تھے تاہم یہ فیصلہ ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے رجیم چینج آپریشن کا حصہ تھی۔ پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وہ وقت تھا جب ارشد شریف اور دیگر کئی صحافیوں سمیت سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک مخصوص بیانیہ فیڈ کیا گیا جس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے  میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی، اس میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور اس کی قیادت کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک سپن ڈاکٹر کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعے فوج کے خلاف مخصوص بیانیے کو پروان چڑھایا۔ پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو کہ آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ نیوٹرل اور غیرسیاسی جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام پروپیگنڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا۔ الفاظ کی ہیر پھیر، گمراہ کن اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اداروں اور ان کی قیادت کو غدار ٹھہرا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مرحوم ارشد شریف کے علاوہ دیگر صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے بھی سائفر کے حوالے سے  بہت سخت باتیں کیں۔ اس کے باوجود ان کے حوالے سے ہمارے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات تھے نہ ہیں، کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان میں نہیں رہے، آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں جو ان کا آئینی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج دیکھنا یہ ہوگا کہ مرحوم ارشد شریف کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے حقائق کیا ہیں، 5 اگست 2022 کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کے حوالے سے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری اطلاع کے مطابق یہ تھریٹ الرٹ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر جاری کیا گیا جس میں شبہ ظاہر کیا گیا کہ افغانستان میں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ نے اسپن بولدک میں ایک میٹنگ کی ہے جو ارشد شریف کو راولپنڈی اور ملحقہ علاقوں میں نشانہ بنانا چاہتے ہیں، اس حوالے سے وفاقی حکومت یا سکیورٹی اداروں سے کسی قسم کی معلومات شیئر نہ کی گئیں کہ کیسے اور کس نے خیبر پختونخوا حکومت کو یہ اطلاع دی کہ ارشد شریف کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا جس کا مقصد شاید ارشد شریف   کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنا تھا جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے لیکن بار بار ان کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ ان کو خطرہ لاحق ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 8 اگست 2022 ء کو شہباز گل کے اے آر وائی چینل پر بغاوت پر اکسانے کے متنازع بیان کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی اور اسے ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف قرار دیا اور 9 اگست کو انہیں گرفتار کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس متنازع سپیشل ٹرانسمیشن کے حوالے سے اے آر وائی کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ عماد یوسف سے تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال نے عماد یوسف کی گرفتاری کے فورا بعد ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھیج دیا جائے، اس کے جواب میں انہوں نے سلمان اقبال کو بتایا کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی کے لیے روانہ ہوں گے۔ ٹریول پلان کے مطابق 9 ستمبر 2022 ء کو ارشد شریف کو پاکستان واپس آنا تھا۔ وہ دبئی کا ویزا ایکسپائر ہونے پر وہاں سے کینیا روانہ ہوئے، ہماری اطلاع کے مطابق کسی نے سرکاری سطح پر ارشد شریف کو ملک سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا، تو وہ کون تھے جنہوں نے انہیں وہاں سے جانے پر مجبور کیا؟ اس سوال کا جواب لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ متحدہ عرب امارات روانگی سے منسلک دستاویزی معاملات کو کس نے انجام دیا۔ قیام و طعام کا بندوبست کون کررہا تھا، کس نے انہیں مسلسل یہ باور کرایا کہ وہ پاکستان واپس نہ آئیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا، کس نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی جان بیرون ملک خاص طور پر کینیا جیسے ملک میں محفوظ ہے۔ ان کی میزبانی کون کر رہا تھا، ان کا پاکستان میں کس کس سے رابطہ تھا، ارشد شریف کی وفات سے منسلک کردار وقار احمد اور خرم احمد کون ہیں؟ ان کا ارشد سے کیا رشتہ تھا۔ ارشد شریف کی وفات ایک دور افتادہ علاقے میں ہوئی، کینیا پولیس نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں تھا تو ان کی وفات کی خبر کس نے اور کس کو دی؟ لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ کینیا کی پولیس اور حکومت نے اس کیس میں اپنی غلطی کو تسلیم کیا ہے لیکن دیکھنا ہے کہ کیا یہ واقعی غلط شناخت کا معاملہ ہے یا ٹارگٹ کلنگ ہے، تو بہت سے سوالات جواب طلب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس افسوسناک واقعے کی صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں اور اس کے لیے ہم نے حکومت سے اعلی سطح کے انکوائری کمشن کی استدعا کی ہے، اس کمشن کو اگر بین الاقوامی ماہرین، فرانزک اور آئی ٹی ماہرین کی ضرورت ہو تو ان کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو افسر سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے۔ لہذا انہیں پاکستان واپس لاکر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر چلائی جا رہی مہم کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کی ناگہانی موت کے فورا بعد سوشل میڈیا پر مخصوص لوگوں نے الزامات کا رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کردیا، اس سفاک موت سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سب کو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے، جب تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی، کسی پر الزام تراشی ہرگز مناسب نہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میری آپ سے درخواست ہے کہ اپنے اداروں پر اعتماد برقرار رکھیں، اگر ہم سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے ان کو دھو رہے ہیں، یہ آپ کی فوج ہے، 35 سے 40 سال وردی پہننے کے بعد کوئی غداری کا طوق لٹکا کر گھر نہیں جانا چاہتے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم غدار اور سازشی ہرگز نہیں ہو سکتے، اس چیز کا ادراک سب کو کرنا ہو گا کیونکہ فوج عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وارفیئر کی ایپلی کیشن کے مترادف ہوبہو عملدرآمد پاکستان میں ہو رہا ہے لہذا ہم اس سے نبرد آزما ہیں اور اس سے باہر نکلیں گے، ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہماری شناخت سب سے پہلے پاکستان ہے اور ہم نے بطور ادارہ اپنی قوم کو کبھی مایوس کیا ہے، نہ کریں گے، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔ لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں۔ جوا ن اپنی جانوں کے نذرانے وطن کی خاطر قربان کر رہے ہیں۔ جب ان جوانوں کو جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تضحیک اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لہذا اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں خاموش نہیں رہ سکتا، جب ایک جانب سے جھوٹ اتنی روانی سے بولا جائے کہ ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے، میں کوشش کروں گا کہ بلاضرورت سچ نہ بولوں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ لسبیلا میں ہمارے جوان اس مٹی کی خاطر شہید ہوئے لیکن ان کا بھی مذاق بنایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کسی کو شواہد کے بغیر میر جعفر، میر صادق کہیں تو اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، یہ بالکل 100 فیصد جھوٹ پر بنایا گیا نظریہ ہے، لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نظریہ کیوں بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میر جعفر کہنا، غدار کہنا، نیوٹرل کہنا، جانور کہنا یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ میں نے، میرے ادارے نے یا آرمی چیف نے کوئی غداری کی، یہ اس لیے بھی نہیں کہ انہوں نے کوئی غیر آئینی یا غیر قانونی کام کیا ہے، بلکہ یہ اس لیے ہے کہ ادارے نے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے سے انکار کردیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آرمی چیف پر اور ان کے بچوں پر کتنی غلیظ تنقید کی جاتی رہی لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کیا ۔ جب وہ چلے جائیں تو ان کی لیگیسی میں ایک ایسا ادارہ ہو جس کا آئینی رول ہو، اس کا ایسا رول نہ ہو جسے متنازع بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی آپ کو بتادوں کہ مارچ میں آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیر معینہ مدت تک توسیع کی بھی پیشکش کی گئی، یہ پیشکش میرے سامنے کی گئی، یہ بہت پرکشش پیشکش تھی، لیکن انہوں نے اس بنیادی فیصلے کی وجہ سے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی کہ ادارے کو متنازع رول سے ہٹا کر آئینی رول پر لانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کو حق ہے اپنی رائے دینے کا، بحیثیت سپاہی میں اس حق کا احترام کرتا ہوں اور اس حق کا ہر ممکن حد تک تحفظ کروں گا، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میرجعفر ہے تو ماضی میں آپ اتنی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے، اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے اور میر جعفر ہے تو آپ اس کی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں کر رہے تھے؟۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپہ سالار غدار ہے اور میر جعفر ہے لیکن آپ ان کو کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کو ساری زندگی اس ملازمت پر رہنا ہے تو رہیں، اگر وہ واقعی آپ کی نظر میں غدار ہیں تو پھر آج بھی ان سے پس پردہ کیوں ملتے ہیں، مجھے آپ کے ملنے پر اعتراض نہیں ہے، آپ ملیے، ہمارا فرض ہے اس ملک کے ہر شہری کی آواز پر لبیک کہنا، لیکن یہ نہ کریں کہ آپ رات کی خاموشی میں بند دروازوں کے پیچھے ہم سے ملیں اور اپنی آئینی و غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں، یہ بھی آپ کا حق ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ دن کی روشنی میں آپ اسی شخص کو غدار کہیں، آپ کے قول و فعل اور فکر و تدبر میں اتنا بڑا تضاد ٹھیک نہیں ہے۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم بھی حکومت کے نیچے ایک ادارہ ہیں۔

 اگر کسی  ادارے پر کوئی انگلیاں اٹھا رہا ہے تو حکومت وقت نے اس کے خلاف ایکشن لینا ہے۔ کسی کو گرفتار یا کچھ کرنا ہماری صوابدید نہیں ہے، ہم صرف حکومت سے درخواست کر سکتے ہیں۔  انہوں نے فیصل واڈا کا نام لئے بغیر کہا کہ کل والی پریس کانفرنس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا لیکن میرے خیال میں جو انکوائری کمیشن بنا ہے وہ ان تمام لوگوں اور شواہد کو دیکھے گا، اسی لیے میں نے کہا کہ اس کیس کی غیرجانبدار اور شفاف تحقیقات ہوں۔اگر یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہوگا۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ جب وہ یہاں پر تھے تو ان کا اسٹیبلشمٹ سے اور میرے اپنے ادارے کے لوگوں سے رابطہ تھا، جب وہ باہر چلے گئے تب بھی رابطہ تھا، اس مہینے بھی انہوں نے میرے ساتھ کام کرنے والے ایک جنرل صاحب (بی جی سی) سے رابطہ رکھا، اپنی واپسی کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونی چاہیے کہ آرمی چیف کی تعیناتی اپنے وقت پر ہوگی اور آئینی طریقہ کار کے مطابق ہوگی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، بیشک وہ رائے مجھ پر تنقید ہی کیوں نہ ہو، بحیثیت سولجر آپ کے اس حق کے تحفظ کا ذمہ دار ہوں، آپ صبح شام ہمارا موازنہ کیجئے لیکن پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک اور قوم کے لیے کیا کیا ہے۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مشہور مقولہ ہے کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کی رائے کا حق ہے لیکن اپنے مرضی کے حقائق کا نہیں، رائے کا اظہار کریں لیکن حقائق مینوفیکچر نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2021 کے بعد انتخابات دیکھ لیں، کہیں پر بھی بھی فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا کوئی ثبوت کسی کو ملا ہو تو بتائیں، اس موقع پر ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ آپ نے سوال کیا کہ غیرمعینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کس نے کی؟ ظاہر ہے اس وقت جو حکومت تھی جو انہیں قانونی طور پر غیرمعینہ مدت تک توسیع دینے کی مجاز تھی اسی نے یہ پیشکش کی، یہ پیشکش اسی لیے کی گئی کیونکہ تحریک عدم اعتماد  عروج پر آچکی تھی۔  سردست آپ کو یہ بتا دوں کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے کوئی خطرہ نہیں ہے،  پاکستان کو اس وقت خطرہ عدم استحکام سے ہے، یہ وہ چیز ہے جس پر میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ عدم استحکام کی کیا وجوہات ہیں، جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتا ہے، انہوں نے کہا کہ جب میں خود ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نے کہا کہ میری نظر میں یہ ہمارے معاشی مسائل ہیں، جنہوں نے سوال پوچھا وہ میری رائے سے متفق نہیں ہوئے، ان کی نظر میں حزب اختلاف پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔  باہر سے الحمد اللہ ہمارے دشمنو ں کو معلوم ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں،  آئی ایس آئی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ادارہ صرف وہ کام کرے گا جو قومی امنگوں کا مظہر ہے اور اسی انداز میں کرے گا جو آئین میں لکھا ہے، اس سے باہر نہیں جائے گا۔ نیوٹرل کے القابات سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پر آر نے کہا کہ نیوٹرل کا لفظ ہم نے خود کبھی استعمال نہیں کیا، ہم نے ہمیشہ کہا کہ ہم اے پولیٹکل (غیرسیاسی) ہیں جوکہ ہمارا آئینی کردار ہے، اس کو نیوٹرل کہہ دینا، جانور سے تشبیہ دے دینا اور دین کا حوالہ دینا مناسب نہیں، میں کوئی عالم دین نہیں ہوں، لیکن جتنا دین مجھے سمجھ آتا ہے میرا خیال ہے اس کردار کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ہمارا آئینی کردار ہے اور پاکستان کا آئین شریعت کے عین مطابق ہے،  انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئیں، یہ ایک تاریخ ہے، اسی تاریخ کی وجہ سے ہم پر انگلیاں اٹھتی ہیں لیکن ان غلطیوں کا قرض ہم برسوں سے ادا کررہے ہیں، ادارے نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ سیاسی مداخلت یا کسی کے حق میں مداخلت آگے نہیں چل سکتا اور ان شا اللہ آپ دیکھیں گے کہ ہم اس فیصلے پر قائم رہیں گے۔ ایوان صدر میں ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ ملاقاتیں ضرور ہوئیں، میں ان ملاقاتوں میں کوئی ممانعت نہیں دیکھتا کیونکہ اس کی نیت ملک میں سیاسی استحکام اور ٹھہراو لانا اور رویوں میں تلخی کو کم کرنا تھا، لیکن وہ اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی، وہ کیوں نہ پہنچیں اور اس کے علاوہ کون سی ملاقاتیں ہوئیں؟ اس حوالے سے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ بلاضرورت سچ شر ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق قبل از وقت رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہے، تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے، ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ فوج کے غیرسیاسی رہنے کا فیصلہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آئندہ 15 سے 20 برسوں میں اس ادارے کی قیادت سنبھالنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج پریس کانفرنس کے لیے اس لیے مجبور ہوا کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ جھوٹ فراوانی سے بولا جارہا ہے اور ہمارے نوجوان ذہن اس کو قبول کرتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس چیز سے اتفاق نہیں کروں گا کہ ارشد شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے افسران نے دھمکایا ہو، اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ وہ ملک نہ چھوڑیں تو کیا وہ ملک چھوڑ سکتے تھے؟ ان کے سیاسی رائے سے اختلافات کی گنجائش رہی ہے لیکن ہمارے افسران کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات رہے۔ صحافیوں کو دھمکی آمیز فون کالز سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ یہ بات بھی اکثر جھوٹ پر مبنی ہے، لانگ مارچ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسلام آباد میں کسی جتھے کو داخل نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، لانگ مارچ سب کا جمہوری حق ہے، اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں، حکومت کو کسی وقت فوج کی ضرورت پڑی تو آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں گے۔  وزیراعظم کے غیرملکی دوروں کے دوران لانگ مارچ کے اثرات سے متعلق سوال کے جواب میں جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اس کے اثرات ضررو ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرروت ہے کہ دنیا کے تمام ملکوں میں اس طرح کے جمہوری اجتماع ہوتے ہیں،ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل میں تھرڈ پارٹی کے ملوث ہونے کے امکان موجود ہیں، لیکن تحقیقات مکمل ہونے تک اس وقت ہم کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کوئی حکومت اپنے دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے اس طرح کے پروپگینڈا کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ چند روز قبل ایک کانفرنس میں اداروں کے خلاف نعرے بازی ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی اس لیے یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔ صحافیوں کو لفافہ کہے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ پاکستان کے صحافی بہت مشکلات اور خطرات کے باوجود اپنا کام بہت اچھا کررہے ہیں، صحافیوں کو لفافہ کہنے کے خلاف ہوں، ہمارا کوئی صحافی ایسا نہیں جسے میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...