ہمارے نظریاتی و سرحدی محافظوں کو سلام 


پاکستان کی مسلح افواج کو جو اپنی تربیت مہارت اور حربی استعداد کی بدولت دنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے۔ صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہی نہیں اسے ملک کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے بھی ہمہ وقت سرگرم رہنا پڑتا ہے۔ ایسے عناصر جو ہماری نظریاتی سرحدوں کے مخالف ہیں۔ غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ انکی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے متحرک رہنا پڑتا ہے۔ یہ ان کی جانفشانی کا صلہ ہے کہ ہماری مسلح افواج کے ہزاروں جوان ہماری ناقص پالیسیوں اور سیاسی حماقتوں کی وجہ سے ملک دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اور دہشت گردوں کی بہیمانہ حملوں کی وجہ سے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ وہ خون ہے جو اس وطن کے عوام کی حفاظت کے لیے مقدس سرحدوں کی حفاظت کے لیے بہتا ہے اور بقول اقبال 
میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا 
صلۂ شہید کیا ہے تب تاب جاویدانہ 
اگر آج ہم اپنے گھروں میں آرام و چین کی نیند سو رہے ہیں تو اس وجہ انہی سرحدوں پر اپنی ڈیوٹی پہ شب بیدار جوانوں کے رت جگے ہیں جو خود جاگ رہے ہیں۔ بیدار ہیں۔ ورنہ ہمارا دشمن ہمیں ایک لمحہ بھی چین سے جینے نہ دے۔ اس کے نزدیک ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ بلوچ ، پٹھان، سندھی یا پنجابی، یہ سب بعد کی پہچان ہے۔ ہمارے دشمن اگر ہمارے اندر چھپے ملک دشمن عناصر کو استعمال نہ کریں تو کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ ہماری طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔ 
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اندر چھپے آستین کے سانپ دشمن کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے ہیں اور ہماری سرحدوں کی حرمت پامال کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے خاص طور پر سکیورٹی یعنی سلامتی کے اداروں کے خلاف منہ کھولنے پر پابندی ہے۔ مگر ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر جو بکواس کی جاتی ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ یہ سارے اکائونٹ دشمنوں کی مدد سے چلائے جاتے ہیں۔ گمراہ نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ لسانی صوبائی ہمدردی کے نام پر نئی نسل کو تعصب اور انتہا پسندی کی ترغیب دی جاتی ہے جو ایک خطرناک عمل ہے۔ کتنے حیرت کی بات ہے کہ جب ملک پر کوئی مشکل وقت آتا ہے تو یہ گمراہ عناصر گدھے کے سر پر سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر سیلاب ہو یا زلزلہ، یا کوئی اور قدرتی آفت، سکیورٹی اداروں کے یہی ہمارے جوان جنہیں انکے والدین نے بہن بھائیوں نے بڑے ارمانوں سے پالا ہوتا ہے۔ دن رات کا آرام سکون چھوڑ کر دشوار گزار علاقوں میں اپنی جان لڑا دیتے ہیں لوگوں کو اس مشکل سے نکالنے میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ 
پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پی کے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سیلاب کے منہ زور آفت نے یہاں تباہی مچا دی۔ تب یہ تعصب اور انتہا پسندی پھیلانے والے کہاں مر کھپ گئے تھے۔ اگر ان میں غیرت ہوتی تو کم از کم اپنے اپنے علاقوں میں اپنے اپنے لوگوں کی خدمت کے لیے انہیں مشکلات سے نکالنے کے لیے ہی سامنے آتے ان کی مدد کرتے نہیں سب دیکھ رہے ہیں ایک بھی علیحدگی پسند نظریات رکھنے والا یا اس کا پرچار کرنے والے دشمن سے کروڑوں مال فنڈ لینے والا سامنے نہیں آیا کسی نے ایک پیسہ بھی سیلاب متاثرین پر خرچ نہیں کیا گیا۔ یہ بلوچستان کے لوگوں کو بہکانے والے کیا سیلاب میں بہہ گئے تھے مر گئے تھے۔ یہ برساتی مینڈک کیا صرف ٹر ٹرانا جانتے ہیں۔ کیا ان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ا پنے لوگوں کو جن کے یہ نام نہاد ہمدرد بنے پھرتے ہیں بچانے کے لیے آگے آتے ان کی آبادکاری میں مدد کرتے انہیں غذائی اجناس ادویات فراہم کرتے۔ یہ کرنے والے کام ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی فصلی بٹیرا سامنے آیا ہو۔ سب غائب رہے۔ چمن سے چترال تک صرف اور صرف فوجی جوان یا چند فلاحی تنظیمیں موجو حوادث سے لڑتے مقابلہ کرتے نظر آئے۔ 
اس کے باوجود ہمارے بعض سیاستدان دانستہ یا نادانستہ سرحدوں کے ان محافظوں پر اپنے قلم سے اپنی زبانوں سے رکیک حملے کر رہے ہیں۔ کیا اس  سے ملک و قوم کے دشمنوں کے حوصلے نہیں بڑھ رہے۔ وہ خوش ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے دفاع کی آخر دیوار میں یہ قوم فروش نقب لگانے میں مصروف ہیں مگر 
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 
ہمارے سادہ لوح عوام خواہ بلوچستان میں ہوں یا خیبر پی کے میں۔ پنجاب میں ہوں یا سندھ میں بخوبی جانتے ہیں کہ خون دینے والے مجنوں کون ہیں اور چوری کھانے والے کون ہیں۔ 
بے شک لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ مگر اس وقت خود بلوچستان کے اہم ممتاز سیاسی و قبائلی رہنما اختر مینگل اس معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔ انہیں کھل کر کام کرنے دیں تاکہ وہ ملک دشمن عناصر کے منفی بیانیے کا پول کھول سکیں۔ اس وقت منظور پشین، علی وزیر اورمحسن داوڑ بھی آزاد ہیں۔ انہیں کھلے دل سے قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے امید ہے وہ بھی اپنی صلاحیتیں منفی توانائیوں پر صرف کرنے کی بجائے مثبت سرگرمیوں میں صرف کریں گے ورنہ خیال رہے اگر شمالی اور جنوبی وزیر ستان سے سوات تک طالبان مزاج حاوی آ گیا تو بچنے کے لیے ان کے پاس بھی کوئی راہ نہیں رہے گی۔ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں طالبان نے نہ قوم پرست چھوڑے نہ اقلیتی فرقے، نہ سیاستدان ، نہ سیاست۔ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہوئے داخل دفتر کر دیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن