ہم دغا پڑھتے رہے

ایک شخص نے مٹی کھود کر سونا دفن کیا کچھ مدت کے بعد جب ضرورت کے تحت اس نے مٹی سے سونا نکالا تو جھاڑ پونچھ کر سونے کی چمک اور بھی دوبالا ہو چکی تھی۔اسی طرح کسان نے جب زمین میں بیج بوئے تو اگلے سال فصل کی صورت اس کا پھل بھی پایا ، نفع بھی حاصل ہوا اور دلی تسکین بھی۔برا تو اس بیوقوف کے ساتھ ہوا جس نے دولت محفوظ رکھنے کے لیے نوٹ زمین میں دفن کیے اور چند ہفتوں کے بعد نکالنے کے لیے کھدائی کی تو خاک ہاتھ آئی جس کو چھانتے بھی تو کچھ ہاتھ نہ آ سکتا تھا۔ کتابیں اور خاص طور پر نصابی کتب کے معاملہ کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ ہر سال ٹیکسٹ بک بورڈ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ بورڈ نے نئے سرے سے تعلیمی ذمہ داری اٹھائی ہے (یقینی طور پر اس کا تعلق عہدوں کی تبدیلی سے ہے )۔ کیونکہ اعلان کے مطابق بر وقت نصابی کتب کی فراہمی کے لیے جو پالیسی بنائی جاتی ہے۔وہ’’ہوائی‘‘ ثابت ہوتی ہے۔صوبہ بھر میں اغلاط سے پر ، غیر معیاری نصابی کتب کے لیے آدھا تعلیمی سیشن گزر جاتا ہے۔کتابوں کا بر وقت حصول والدین اور طلبہ کے لیے اصل امتحان سے پہلے لٹمس ٹیسٹ کی صورت لیا جاتا ہے۔ نصابی متن میں کسی تبدیلی کے بغیر نئے سال کا ٹیگ لگا کر جو کتب مارکیٹ میں موجود ہیں وہ لٹمس ٹیسٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ اونچی دکان ، پھیکا پکوان کے مصداق ، انتہائی ناقص پیپر ، مٹے مٹے حروف والی سیاہی جس کے ذریعے دعا کو دغا پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ سالانہ تبدیلی کے اس اعلان کے مطابق اردو محاورات میں ’’چھاج‘‘ اب نئی صورت میں ’’چھان‘‘ پڑھا اور لکھا جائے گا۔ ’’کاہلی‘‘ کی سیاہی دھو کر اسے ’’ کالی‘‘ کا نام دیا جائے گا۔ سرو سموگ کے باعث سرد ہو چکا ہے۔بار برداری نے اپنا نام تار برداری رکھ لیا ہے۔’’کتابچہ ‘‘ جو کچھ عرصہ پہلے ہی کتا۔۔ بچہ ہو چکا ہے۔ اب قطعہ نے بھی نام تبدیل کر کے قلعہ رکھ لیا ہے۔ ایسے ایسے نقاط ’’زیر و زبر‘‘ ہوئے ہیں۔ جنہوں نے خواب میں بھی اس تبدیلی بارے نہیں سوچا تھا۔ انھوں نے اس تبدیلی کے لیے نہ کبھی احتجاج کی کال دی ، نہ لانگ مارچ کا اعلان کیا ، حد تو یہ کہ نقاط اور املا میں اس’’ معنوی سرجری ‘‘ کے لیے پچاس دن تو کیا ایک دن کے لیے بھی کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا۔ ہائے۔
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے 
مرے تھے جن کے لیے ،وہ رہے وضو کرتے
پروف ریڈرز کے ساتھ پوری کمیٹی کا زور صرف نام کی تشہیر پر ہے۔حالات یہ ہیں کہ سپیلنگ کی اغلاط نے انگریزی سامراج پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔مرد مومن کی اس ضرب ، تقسیم اور نفی کاری سے کیمیکل ری ایکشن بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ری ایکشن جو بیوٹی پارلر سے تیار دلہن کے منہ دھونے پر دلہا کی طرف سے آتا ہے۔ لیکن چارہ دل سوائے صبر نہیں۔۔ دس ، بیس سال پہلے کا نصاب کسی حد تک اس وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور اخلاقی تربیت میں معاون تھا لیکن دنیا آگے اور ہم الٹا پہیہ گھما کر اس کے ساتھ لٹکے صرف ایسے سوالات میں منہمک ہیں کہ مصنف ہوٹل کے جس کمرہ میں ٹھہرا تھا اس کا نمبر کیا تھا ؟ چھہتر سالوں سے ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آ سکی کہ بری صحبت کے نقصانات کیا ہیں۔ تبدیلی اور تخلیقی سطح کا عالم یہ ہے کہ بچپن کی یادیں اس نسل سے پوچھی جا رہی ہیں جن کا بچپن بند گھروں میں گزرا اور چار سال سے کرونا کی تصویری دہشت میں مبتلا ہے۔ہم اپنی نسل سے جدید تقاضوں کے متعلق بات کیوں نہیں کر سکتے۔اپنے خوف کو اگلی نسل کے لیے ثمرات کیوں سمجھتے ہیں۔لاہور ٹیکسٹ بک بورڈ ایک ذمہ دار اور معتبر ادارہ ہے تو پھر یہ اغلاط سے پر نصابی کتب پھیلا کر تشکیک کے بیج کیسے بوئے جا رہے ہیں۔جس سے طلبہ کچھ کا کچھ پڑھتے رہیں گے اور بصیرت سے محروم نسل بڑھتی رہے گی۔ درخواست ہے کہ اس معاملے کو دیکھا جائے کہ
نصابی کتب کی ری سائیکلنگ کے عمل میں متن کی طرف کسی کی توجہ کیوں نہیں گئی اور صرف غلطیوں کی ترسیل کے لیے نئے پن کی ضرورت کیوں سمجھی گئی۔پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ جیسا معتبر ادارہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ہماری نوجوان نسل اسی نصاب کے تحت ہر سال امتحان پاس کر کے آ گے آتی ہے۔ ان دنوں جو مسئلہ درپیش ہے وہ کتب میں اغلاط کی درستی سے متعلق ہے۔ ادارے کی زمہ داری ہے کہ وہ درسی کتب میں پائی جانے والی اغلاط کی تصیح فرمائیں اور غیر زمہ داران کے کارروائی کی جائے۔ جو کتب تاحال مارکیٹ میں نہیں آئیں ان کی دستیابی کا عمل ممکن بنایا جائے۔ طلبہ و طالبات کا مستقبل جن بیوپاریوں کے ہاتھ میں جھول رہا ہے ان تک پہنچنا ناممکن نہیں ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے اپنا سونا جس زمین میں دفن کیا ہے وہاں کھدائی ممنوع ہے۔ پیدل چلنے والے دیکھ کر راستہ چلیں۔ صفحات کو آگے پیچھے کرنے کو ہی سال نو کی نصابی کتب قرار دینے سے مجید امجد کی نظم ' کنواں چل رہا ہے " یاد آگئی
کنواں چل رہا ہے مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں، نہ فصلیں ، نہ خرمن ، نہ دانہ 
نہ شاخوں کی باہیں ، نہ پھولوں کے مکھڑے ، نہ کلیوں کے ماتھے ، نہ رت کی جوانی ، 
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو یوں چیرتا۔۔تیز خوں رنگ پانی 
کہ جس طرح زخموں کی دکھتی ، تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی 
ادھر دھیری دھیری 
کنویں کی نفیری
ہے چھیڑے چلے جا رہی اک ترانہ 
پرسرار گانا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...