ایک اور لانگ مارچ

سابق وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو ایک اور لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے. عمران خان اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں. ان کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں خود میدان میں اترے اور سیٹیں جیت گئے، دوسری طرف عمران خان کے مقابلے میں تمام سیاسی جماعتیں تھیں اور وہ سب مل کر بھی عمران خان کو نہیں ہر سکے. عمران خان نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں بیک ڈور مذاکرات پر بات کی اور کہا سیاسی جماعتیں ہمیشہ مذاکرات کے لئے تیار رہتی ہیں لیکن انھیں مذاکرات نتیجہ خیز نظر نہیں آرہے اسی لئے اب وہ لانگ مارچ کر کے عوامی پریشر ڈال کر عام انتخابات چاہتے ہیں. دوسری جانب حکومتی جماعتیں انتخابات کروانے کے موڈ میں نہیں، ان کا کہنا ہے کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہونگے، بلاشبہ ن لیگ نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی مقبولیت کھوئی، عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا، مہنگی بجلی کے بم گرائے، پٹرول مہنگا کیا، اس کے بدلے میں عوام نے ضمنی انتخابات میں انکو رد کیا. ن لیگ کا کہنا ہم نے ملک دیوالیہ ہونے سے بچایا، ملک کے مفاد کے لئے مشکل فیصلے کیے البتہ اس کی بھاری قیمت عوامی ناراضگی کی شکل میں چکانا پڑی. لیکن جیسے ہی ملکی معیشت بہتر ہو گی عوام انہی کا ساتھ دے گی۔ ذرائع کے مطابق ن لیگ پنجاب حکومت واپس لینے کی تگ و دو میں ہے اور ہر ممکن آپشن پر غور کر رہی ہے جس سے انہیں پنجاب حکومت واپس مل سکے۔ پنجاب کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اس بات کی بھنک ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے اسی لئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس مسلسل جاری رہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اس بات سے لا علم نہیں ہیں کہ انکو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں اسی لئے وہ بار بار فیٹف کے معاملے پر آرمی چیف کی تعریفیں کر رہے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ انکی کرسی انھی کی وجہ سے محفوظ ہے. ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کیلئے ن لیگ اور زرداری صاحب پرویز الہی کو راضی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اگر وہ راضی نہیں ہوتے تو تحریک انصاف کے کچھ اراکین کو توڑنا انکا ٹارگٹ ہے تا کہ جب وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد ہو تو وہ اراکین اسمبلی میں حاضر نہ ہوں، بالکل ایسے ہی جیسے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے باغی اراکین نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ڈی فیکشن کلاز سے بچ گئے تھے. پنجاب میں تحریک انصاف کے متعدد اراکین پرویز الہی سے خوش نہیں ہیں، بہت سے ایسے منسٹرز ہیں جنکی شنوائی نہیں ہو رہی ہے وزیر اعلی آفس پر پرویز الہی، مونس الہی اور انکے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کا قبضہ ہے. اگر حالات یہی رہے اور تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی نہ سنی گئی تو ممکن ہے کہ یہ اراکین بھی باغی ہو جائیں اور تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے ہاتھ دھونا بیٹھے. پنجاب کو چونکہ آدھا پاکستان کہا جاتا ہے اسی لئے ن لیگ اس بات پر مصر ہے کہ طاقتور حلقے انھیں پنجاب حکومت واپس لے کر دیں.لیکن شاید عمران خان کو پنجاب حکومت کی اتنی فکر نہیں اسی لئے اب وہ آر یا پار کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے لانگ مارچ کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا میں قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ عمران خان نے کہاہماری حکومت میں تین مارچ ہوئے، ہم نے کبھی کسی کو مارچ کرنے سے نہیں روکا۔ہمارے دور میں بلاول بھٹو نے 2مارچ کیے ، مولانا فضل الرحمٰن نے ایک مارچ کیا۔ ہم نے تو کسی کو مارچ سے نہیں روکا، تب تو کسی نے پروا نہیں کی کہ پاکستان کتنی مشکل میں ہے۔ عمران خان اس لانگ مارچ کو لاسٹ لاف کے طور پر استعمال کریں گے. لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان لانگ مارچ کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، اسکا جواب وہ ایک ٹی وی انٹرویو میں دے چکے ہیں، نئے انتخابات تک آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہونی چاہیے. نواز شریف اور زرداری کو نیا آرمی چیف لگانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے. مطلب یہ ہے کہ عمران خان انتخابات جیت کر خود نیا آرمی چیف لگانے کے خواہاں ہیں. بحرحال یہ سب باتیں ابھی قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں. اس لانگ مارچ میں عمران خان صرف دو چیزیں کر سکتے ہیں. ایک، عوامی جم غفیر جمع کر لیں، ملک جام کر دیں اور حکومتی جماعت سے مذاکرات کر کے انتخابات کی تاریخ لے لیں، دوسرا، لانگ مارچ میں اگر عمران خان کو عوامی سپورٹ حاصل نہ ہوئی تو پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلی توڑنے کی آپشن رکھتے ہیں. تا کہ ملک کے دو صوبوں میں انتخابات کی لہر بن جائے. اس آپشن پر وہ پہلے بھی اپنے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر چکے ہیں۔ مگر صوبائی اسمبلی کے ممبران نے اس آپشن کو اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف قرار دیا تھا کیونکہ اگر پنجاب پاس نہ رہا تو خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور وفاقی حکومت انکو کسی کیس میں بھی گرفتار کر سکتی ہے۔ بحرحال نومبر کا مہینہ ملکی سیاست کے لئے بہت اہم ہے. عمران خان کے ایک اور لانگ مارچ کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اسکا انتظار کرنا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...