لیاقت بلوچ
اللہ رب العزت نے اپنے آخری نبیؐ، ہمارے اور آپ کے آقا، خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد مصطفی ؐ کو تمام جہانوں اور تمام مخلوقات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ نسلِ انسانی کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے انبیاء و مرسلین کا جو سلسلہ حضرت آدمؑ کی پیدائش سے شروع ہوا تھا وہ ہمارے اور آپ سب کے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ کی ذاتِ عالی مرتب پر آ کر ختم ہوا۔آپؐ پر دین حق کی تکمیل ہوئی اور نسلِ انسانی کی ہدایت کا سلسلہ بامِ عروج پر پہنچ کر اپنی منزل پر آ کر اختتام پذیر ہوا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:آج ہم نے دین (اسلام) کو تمہارے لیے مکمل کر لیا، اور تم پر اپنی نعمت تمام کی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔)
پیغمبرِ اسلام، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنی حیات طیبہ کے دوران بحیثیت سپہ سالار، تاجر، مبلغ، سیاست دان، قانون دان، معلم اور بحیثیت سربراہ خاندان و سربراہ مملکت ایک بھرپور اور پْرنور زندگی گزار کر نسل انسانی کے لیے تابندہ مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا کے لیے ایک بہترین قابلِ تقلید نمونہ ہے۔
بحیثیت سربراہ مملکت آپؐ نے نسل انسانی کو یہ پیغام اور تعلیم دی کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اور حکمرانی دراصل اللہ رب العزت کی ہے، انسان اللہ رب العزت کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے اس کے احکامات کی پیروی اور نفاذ کے لیے اس دارِفانی میں بھیجا گیا ہے۔ کاروبارِ مملکت و حکومت کو حکم الٰہی اور اتباعِ رسول اللہؐ کے تابع ہو کر چلانا ہی دراصل ہمارا کام اور ذمہ داری ہے اور اس مقصد کے لیے مسلمانوں کو باہمی اتفاق و اتحاد کے ساتھ مشارت کے ذریعے نظم حکومت چلانے کی تاکید کی گئی ہے۔
آپؐ لوگوں کے درمیان تنازعات و مقدمات کا فیصلہ ہمیشہ احکام خداوندی کے مطابق فرمایا کرتے اور فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیتے۔ چناں چہ جب ایک یہودی ایک مسلمان صحابیؓ کے ساتھ کسی تنازعہ کا فیصلہ کرنے آپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپؐ نے یہودی کو حق بجانب دیکھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ فرما دیا۔
آپ ؐ اپنے صحابہؓ کو بھی ہر حال میں حق و صداقت پر قائم رہنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن بھیجا جا رہا تھا تو ان سے پوچھا کہ’’جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ آ جائے تو تم کس طرح فیصلہ دو گے؟‘‘ حضرت معاذ بن جبلؓ نے جواب دیا: ’’کتاب اللہ کی روشنی میں اس کا فیصلہ کروں گا۔‘‘ پھر آپؐ نے دوبارہ پوچھا کہ ’’اگر کتاب اللہ سے فیصلہ کرنے میں دشواری ہو تو؟‘‘ حضرت معاذؓ نے جواباً عرض کیا: ’’حدیثِ رسول اللہؐ سے رہنمائی لوں گا۔‘‘ آپؐ نے تیسری بار استفسار فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ ’’اگر وہاں سے بھی فیصلہ کرنے میں دشواری پیش آئے تو پھر کیا کرو گے؟‘‘ تو حضرت معاذؓنے کہا کہ ’’اجتہاد(یعنی دین اسلام کی روشنی میں اپنی رائے) کی طرف رجوع کروں گا۔‘‘ جس پر رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’خدا کا شکر ہے۔‘‘
جرمن مصنف ایرک فرام نے اپنی تصنیف ’’The Anatomy of Human Destructiveness‘‘ میں لکھا ہے کہ یورپی اقوام نے گزشتہ چار سو برسوں میں 2600سے زائد جنگیں لڑی ہیں، ان میں بیسویں صدی میں لڑی جانے والی دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں جو بنیادی طور پر یورپی اقوام کے مابین لڑی گئیں۔ اس منظر نامے میں کوئی وحدت نہیں، کوئی حقیقی آفاقیت، کوئی حقیقی عالمگیریت اور حقیقی بین الاقوامیت نہیں۔
بیسویں صدی کے اواخر میں مغرب کی برپا کردہ عالمگیریت کا بڑا شہرہ ہوا، لیکن اس عالمگیریت کی بنیاد محبت، اخوت اور تعاون پر نہیں بلکہ استحصال کے تصور پر رکھی گئی ہے۔ ایک طرف سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس اور فوجی، عسکری و معاشی قوت سے مسلح اقوام ہیں اور دوسری طرف وہ اقوام ہیں جن کے پاس صرف خام مال ہے اور ترقی یافتہ اقوام کی تیار کردہ چیزوں کی صرف ’’صارف‘‘ ہیں۔ اس منظر نامے میں طاقتور اقوام کمزور اقوام کے قریب آ رہی ہیں، مگر انھیں گلے لگانے کے لیے نہیں، ان کا گلا دبانے کے لیے۔ اس صورت حال میں پوری انسانیت کی سلامتی کے لیے سنگین خطرات مضمر ہیں۔
اس کے برعکس حضور اکرمؐ جو پیغام لے کر آئے، وہ ایک جانب وحدتِ انسانی کی حقیقی بنیادیں فراہم کرتا ہے اور دوسری جانب امت مسلمہ کی صورت میں ایک ایسی امت تشکیل دیتا ہے، آفاقیت جس کا خمیر ہے، عالمگیریت جس کا ذوق ہے، بین الاقوامی جس کا تناظر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے اراکین کے باہمی تعلق کی نوعیت واضح کرتے ہوئے سورۃ الحجرات میں فرمایا:
’’مومن توایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو۔‘‘
حضرت جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ ؐنے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسری یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔ تیسری یہ کہ مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضورؐنے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ’’ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔‘‘حضرت ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ کا ارشاد ہے: ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا، اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تحقیر کرے۔‘‘
حضرت سہیل بن سعدی آپؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ: ’’ اہلِ ایمان کے گر وہ کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اس طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔‘‘حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘حضرت عبداللہ بن عمر بن عاصؓ سے روایت ہے کہ حضورؐکا ارشاد مبارکہ ہے: ’’مومن وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
غور کیا جائے تو یہی وہ تعلقات ہیں جن کی بنیاد پر انسانی برادری کے درمیان حقیقی محبت اور حقیقی اخوت وجود میں آ سکتی ہے اور یہی وہ نور ہے جو حقیقی آفاقیت، عالمگیریت اور حقیقی بین الاقوامیت کے ذریعے پوری انسانیت کو ایک برادری میں ڈھال سکتا ہے۔
مسلم معاشرے کے لیے ایک بڑا عصری چیلنج یہ ہے کہ مغرب کے آزادیء نسواں کے نعرے کے تحت عورت ڈاکٹر، انجینئر، اداکارہ، گلوکارہ اور ماڈل کے طور پر تو اہم سمجھی جاتی ہے لیکن بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کا کوئی مقام اور مرتبہ نہیں رہا۔ رسول کریمؐ نے امت مسلمہ کیلئے قرآن مجید کی صورت میں مکمل ضابطہء حیات کا نمونہ چھوڑا ہے سیرت طیبہ میں بیوی اور ماں کا مقام ہر دور کے معاشرے کیلئے ایک شافی جواب ہے جس نے معاشرے میں خاندان کے ادارے کو اس کی مرکزیت اور وقار بھی عطا کیا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،