27 اکتوبر: کشمیرمیں یومِ سیاہکشمیر پیدائشی طور پر ہی مظلوم خطہ رہا ہے۔جس دن سے یہ خطہ کفار یا ہندوستان سے آزاد ہوا۔اسی دن سے کشمیریوں نے سکھ کا سانس نہیں لیا. بلکہ شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جس دن وہاں کی زمین پر کشمیریوں کا خون سرخ نہ ہوئی ہو۔وہاں کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں دہائیاں دے دے کر ماتم کرتی زمین میں دفن ہو گئیں۔ بزرگ اپنے جوان بیٹوں پر ظلم و ستم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر روتے روتے نابینا ہوگئے. لیکن ہندوستان کی ظالم حکومت کو کبھی ترس نہیں آیا۔ادھر دنیا کے منصفوں اور سلامتی کے ضامنوں نے ایسی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اپنے کان بہرے اور آنکھیں اندھی کر رکھی ہیں۔نہ کشمیر میں بہتے ہوئے خون کا شور سنائی دیتا ہے نہ روتی، چیختی اور پیٹتی ماں، بہنوں اور بیٹیوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔نہ وادی میں بہتا خون نظر آتا ہے اور نہ نوجوانوں پر چلتی گولیوں سے چھلنی چھاتیاں اور چہرے نظر آتے ہیں۔ایسا سلوک اسرائیل میں یہودیوں پر اور ہندوستان میں ہندوں پر ہو رہا ہوتا تو کب تک اپنا یہ بہری اور اندھی بھینس اپنا کوئی نہ کوئی کردار ادا کر چکی ہوتیں۔کشمیریوں پر پر زیادتیوں کا آغاز 27 اکتوبر1947 سے شرو ع ہو گیا تھا. جب بھارت نے باقاعدہ اعلانیہ طور پر کشمیر میں اپنی فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا تھا۔ اس سے قبل بھارت نے ایک گہری سازش کے ذریعے ریڈ کلف ایوارڈ کی صورت میں گورداس پور کا علاقہ ہتھیا لیا تھا، ریڈ کلف کو یہ مشن سونپا گیا تھا کہ وہ پنجاب کی بانڈری کا تعین کرے۔ہر ایک پر واضح تھا کہ فیروز پور، امرتسر، جالندھر اور گورداسپور مسلم اکثریت کے علاقے ہیں اور یہ پاکستان کا حصہ بنیں گے مگر ایک طرف بھارت کی نظریں کشمیر پر جمی ہوئی تھیں اور دوسری طرف انگریز نے جاتے جاتے تقسیم کرو اور لڑا کی پالیسی کے تحت پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دیئے۔ ان میں گورداسپور کا وسیع علاقہ بھی شامل تھا جہاں سے بھارت کا کشمیر سے زمینی رابطہ قائم ہوسکتا تھا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تقسیم کے اعلان سے پاکستان کی طرف مہاجرین کے قافلوں کا دبا بڑھ گیا اور نئی قائم ہونیوالی ریاست آبادکاری جیسے سنگین مسائل میں گھر گئی۔انگریز دور میں انڈیا میں ساڑھے تین سو سے زائد خود مختار ریاستیں تھیں،ان کے لیے یہ اصول طے کیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں شامل ہوں۔پنڈت نہرو کی حکومت نے زیادہ تر ہندو ریاستوں کو اپنے اندر ضم ہونے پر مجبور کر دیا۔جونا گڑھ اور حیدر آباد کے حکمران مسلمان تھے، انہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارت نے فوجی یلغار کرکے ان ریاستوں پربھی قبضہ جما لیا کہ ریاستوں کی زیادہ تر آبادی ہندوں پر مشتمل ہے۔جونا گڑھ کے نواب جہانگیر خان جی ابھی تک کراچی میں آباد ہیں اور ہر فورم پر اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں. اس معاملے میں بر صغیر کی بہت بڑی درگاہ حضرت سخی سلطان باہو کے سجادہ نشین جناب سلطان احمد علی صاحب نے ان کی حمایت مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا الم اٹھایا ہے. راقم کو ذاتی طور پر بھی نواب جہانگیر خان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا. کشمیر کی صورتحال مختلف تھی، یہ پاکستان کی سرحد سے ملحقہ مسلمان اکثریتی ریاست تھی مگر اس کا حکمران ایک ہندو مہاراجہ تھا۔ بھارت کا دعوی ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے 26 اکتوبر کو اس کیساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا اور اسی ضمن میں بھارت نے اگلے روز 27 اکتوبر کو کشمیر میں بھاری تعداد میں اپنی افواج داخل کر دیں۔ یوں ایک ایسے تنازعے نے جنم لیا جس نے برصغیر کو بار بار خون میں نہلا دیا۔ کشمیر پر بھارتی فوجی تسلط کی دونوں بنیادیں فراڈ ہیں۔ پہلے تو گورداسپور کی بھار ت میں شمولیت کا اعلان سترہ اگست کو ہوا مگر اس روز ریڈ کلف برصغیر میں موجود نہیں تھا، وہ بہت پہلے دلی چھوڑ کر لندن جا چکا تھا۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پنجاب کی حد بندی کا اعلان لارڈ مانٹ بیٹن نے اس وقت کیا جب اس کاانگریز سرکار سے کوئی واسطہ نہ تھا کیونکہ پندرہ اگست کو برصغیر کی تقسیم عمل میں آچکی تھی اور لارڈ مانٹ بیٹن کی وائے سرائے کی حیثیت ختم ہو چکی تھی اور اس نے کانگریس کی فرمائش پر بھارت کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا تھا۔اب تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ بھارت کا گورنرجنرل یکطرفہ طور پر پاکستان کی سرحد کا تعین کیسے کر سکتا تھا۔ اگرچہ لارڈ مانٹ بیٹن نے اپنے حد بندی کے فیصلے کیلئے ریڈ کلف کے ایوارڈ کو ڈھال بنایا تھا. یوں تاریخ کیساتھ دھاندلی کی ایک روایت قائم ہوئی۔بھارت نے یہی دھاندلی مہاراجہ کے الحاق کے اعلان کی صورت میں بھی کی۔دنیا کے کسی آرکائیو میں الحاق کی ایسی کسی دستاویز کا وجود نہیں ہے۔بھارت نے جس کسی کو یہ دستاویز دکھائی ان کا کہنا ہے کہ اس دستاویز پر مہاراجہ کے دستخط نہیں تھے۔ سلامتی کونسل میں برسوں تک بحث ہوتی رہی لیکن بھارت اس دستاویز کو وہاں پیش نہیں کر سکا۔ کشمیریوں نے ان کے کسی بھی من گھڑت اقدام کو ماننے سے ا نکار کر دیا اور پوری وادی سراپا احتجاج بن گئی اور گلی گلی بھارتی فوج سے تصادم شروع ہوگیا۔پاکستان اس تنازعہ کا باقاعدہ ایک فریق تھا اور اسے پورا حق پہنچتا تھا کہ وہ ملحقہ مسلم ریاست کو ہندو تسلط سے بچانے کیلئے کارروائی کرے۔اس طرح کشمیر ی جانبازوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوجی دستوں سے بھی بھارت کا ٹکرا عمل میں آیا۔بھارت کی جارحانہ یلغار میں شامل فوجی دستے بزدل نکلے، وہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے سامنے میدان میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پنڈت نہرو یہ دیکھتے ہوئے. بھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچا اور اس سے سیز فائر کی بھیک مانگی۔اگلے دو برس تک سلامتی کونسل میں بحث مباحثہ چلتا رہا۔ سلامتی کونسل بار بار سیز فائر کی قراردادیں منظور کرتی رہی۔ہر قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ فریقین لڑائی بند کر دیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ طور پر کشمیریوں کو اپنی مرضی سے کرنے دیا جائے۔بھارت نے ان قرارداوں کو تسلیم تو کر لیا اور وقتی طور پر جنگ بھی بند ہوگئی مگر وہ دن اور آج کا دن بھارت ریفرنڈم سے انکاری ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا بھارت کی ایک ہی کوشش ہے کہ وہ اپنی اندھی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیر پر قابض رہے اور وادی کشمیر میں حریت کی ہر آواز کا گلا گھونٹ دے۔