پاک مخالف پروپیگنڈا۔براستہ سوشل میڈیا

Oct 28, 2023

اصغر علی شاد


امراجالا
اصغر علی شاد
shad_asghar@yahoo.com
    بدقسمتی سے گذشتہ کچھ عرصے سے یہ رجحان بن گیا ہے کہ عوام کا ایک طبقہ سوشل میڈیا پر فلسفے بگھارنے والے چند مخصوص افراد کی تقلید میں حقیقت اور فسانے کا فرق بھی ملحوظ نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ افراتفری اور انتشار کو فروغ دینے والے یہ چند ”یوٹیوبرز“ یا نام نہاد ”سوشل میڈیا انفلوئنسرز“ اپنے وقتی فائدے کیلئے ریاست کے خلاف ہی پراپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ امر بھی اب ایک کھلا راز بن چکا ہے کہ تحریک انصاف بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پاکستان کو ایک ناکام ملک کے طور پر پیش کر نے کی مکروہ سازش میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا پر بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق دانستہ طور پر پاکستان کا مخصوص عکس پیش کر کے ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خود ساختہ دانشور بسا اوقات ایسی باتیں کر دیتے ہیں جن سے انکی اپنی اصلیت ہی انکے فالورز پر آشکار ہو جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی ایسے ہی ایک بھگوڑے یوٹیوبر کی فحش گوئی سامنے آئی ہے جس میں انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی اور انکے رفقاءکے اخلاقی اقدار پر بہت سے نا گفتہ بہ سوال اٹھائے ہیں۔ مبینہ سکینڈلز کی ایسے کہانیاں سنائی گئی ہیں جنھیں چاہ کر بھی احاطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ لوگوں کا ایک حلقہ جو ان یوٹیوبرز کی بات کو حرفِ آخر مان کر ریاستی اداروں کیخلاف شرپسندی پر اتر ہے، کیا اب وہ ان الزامات کے بعد بھگوڑے یوٹیوبر کی فحش گوئی پر اندھا دھند یقین کریں گے؟ 
    سنجیدہ حلقوں کے مطابق تحریک انصاف یہ بیانیہ پیش کر رہی ہے کہ اگر اس کی قیادت کسی طرح بھی نااہل ہو گئی تو گویا سب کچھ ختم ہو جائے گا۔مبصرین کے مطابق عمرانی میڈیا اپنا بیانیہ وقت وقت کے حساب سے تبدیل بھی کرتا رہتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنے الزامات کے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں اس کے باوجود تحریک انصاف کے لیڈر اکثر بیرون ملک حکومتوں سے براہ راست مداخلت کا مطالبہ کرتے ہیں جو دیکھا جائے تو پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔نسبتاً کچھ اعتدال پسند حلقوں کے مطابق اپنے غیر ملکی آقاو¿ں کی مدد سے پی ٹی آئی اپنا بیانیہ بیچنے میں کامیاب بھی نظر آتی ہے جس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کیا جانا ضرورت وقت بھی ہے اور حالات کا تقاضا بھی۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ اس امر میں یقینا کوئی شبہ نہیں کہ شخصی آزادی کی اپنی اہمیت ہوتی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فرد کی آزادی قومی سلامتی اور ملکی سالمیت کے لئے جب خطرے کا سبب بننے لگے توذاتی آزادی یقینا پس پشت چلی جاتی ہے اور قومی سلامتی کو پہلی ترجیح حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ماہ سے آڈیو اور ویڈیو لیکس سکہ رائج الوقت بن چکی ہیں اور اس ضمن میں قومی سطح پر ایسے ایسے انکشاف سامنے آرہے ہیں جن کا تصور بھی کچھ عرصہ پہلے تک محال تھا مگر آفرین ہے ایسی شخصیات پر کہ اس امر میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے کہ قومی مفادات کو آگے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کو مدنظر رکھیں بھلے ہی اس کے نتیجے میں ملک کو کتنا ہی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 
    اس امر کی ایک مثال تو ڈیڑھ برس قبل تب سامنے آئی تھی جب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شاہ محمود ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”ابھی تو ہم نے اس سے مزید کھیلنا ہے“۔دوسری طرف پچھلے کچھ عرصے میں کئی آڈیو لیکس بھی منظر عام پر آچکی ہیں جن کی بابت ہر کوئی بخوبی آگاہ ہے۔ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان کی بابت یہ عذر تراشا جارہا ہے کہ یہ سب آزادی اظہار ہے اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔
    حالانکہ کسے نہیں پتہ کہ جب امریکہ میں 9/11کا سانحہ پیش آیا تھا تو وہاں کی سول سوسائٹی اور حکومت نے کیسا ردعمل دیا تھا علاوہ ازیں جب برطانیہ میں 7/7کی دہشتگردی ہوئی تو وہاں کی ریاست نے کس طورفوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہر قسم کی شخصی آزادیاں ختم کر دی تھیں۔ علاوہ ازیں کپیٹل ہل امریکہ میں ریاست مخالف عناصر کو 18برس تک قید با مشقت کی جو سزائیں دی گئیں وہ معاملات تو اتنے تازہ ہیں کہ ان کی تما م تفصیلات سے تو پاکستان سمیت دنیا بھر کا ہر خاص و عام آگاہ ہے۔ ایسے میں وطن عزیز میں ایسی دہشتگردی اور شر پسندی کو معمول کی کاروائی سمجھ کر نظر انداز کر نا کہاں کا انصاف ہے۔توقع کی جانی چاہیے کہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے البتہ اس معاملے میں کسی بے گناہ کو نقصان نہ ہو۔ قابل ذکر ہے کہ آزادی کی قدر نہ کرنے والے ان ناشکرے عناصر کو فلسطین، مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے احوال کا ذرا سا بھی اندازہ ہو تو یقینا انکا طرز عمل مختلف ہو۔

مزیدخبریں