تحریر جاوید اقبال بٹ مدینہ منورہ
زیادہ مقبول ہو جانا بھی بعض اوقات پریشانیوں کا سبب بن جاتا ہے اور پتھر اسی درخت کو لگتے ہیں جو پھلوں سے لدا ہوتا ہے، محسن ایک ہوتا ہے مگر احسان فراموش جا بجا ملتے ہیں۔ ہر دلعزیز میاں محمد نواز شریف نے بھی کچھ ایسی ہی قسمت پائی ہے۔وہ امریکی ڈالروں کی پیشکش ٹھکرا کر پاکستان کے ”ایٹمی قوت“ بن جانے کا برملا اعلان کردیتا ہے۔چاغی کے پہاڑ وطن عزیز کے ناقابل تسخیر ہو نے کے گواہ ہیں۔صنعتی انقلاب کے لئے اقدامات کرتا ہے تو ایکسپورٹ تھمنے کو نہیں آتی،زرائع آمدورفت کا بیڑا اٹھاتا ہے تو موٹر ویز کا بانی کہلاتا ہے۔مفاہمت اور رواداری کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لئے دو قدم بڑھاتا ہے تو سب مخالفین بغلگیر ہو جاتے ہیں۔اس کی مسکراہٹ سے جلنے والے تو جلتے ہی رہیں گے اسے جتنی بار ملکی ترقی سے روک کر سیاست سے دور کیا گیا یہ اس سے دگنا قوت سے واپس آیا۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک پوچھنے والا اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب میاں صاحب نے کہا کہ بھائی ہم تو 28 مئی والے ہیں یہ سوال 9 مئی والوں سے پوچھو۔۔۔میاں محمد نواز شریف اور ترقی کرتا پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے۔وہ جلا وطنی میں بھی پاکستان کی بات کرتا ہے اور وطن واپسی پر بھی اس نے پاکستان ہی کی بات کی ہے۔تھوڑا ماضی میں جھانکتے ہیں پانچویں عام انتخابات1993 میں منعقد ہوتے ہیں اور اسلامی جمہوری اتحاد قومی اسمبلی میں 105 نشستیں جیتتا ہے جب کہ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے حصے میں صرف 45 نشستیں آتی ہیں۔
دیگر 56 نشستیں ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی اور آزاد امیدواروں کے حصے میں آتی ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی ان کی مقبولیت سے خائف روڑے اٹکانے لگ جاتے ہیں اوراس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کو استعمال کیا جاتا ہے۔صدر کے غیر آئینی اقدام کے خلاف میاں محمد نواز شریف کے بہی خوا عدالت جا پہنچتے ہیں۔چیف جسٹس سید نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا فل بینچ تقریباً پانچ ہفتے کی سماعت کے بعد 26 مئی 1993 کو قومی اسمبلی اور نواز شریف حکومت کی غیر مشروط بحالی کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ 9ستاروں والااسلامی جمہوری اتحاد پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے لئے اقدامات اٹھاتا ہے اور ان اقدامات کی بدولت پاکستان مسلم لیگ (ن) 1997 میں ملک کے چھٹے الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے اور نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں۔یہ عہدہ جلیلہ بھی بعض حلقوں کا کھٹکھنے لگتا ہے اور یوں 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے جاتے ہیں اور یوں ایک بار پھر نواز شریف مدت پوری نہیں کر سکتے اورسعودی عرب سیاسی معاملات میں ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے اور ایک مبینہ معاہدے کے بعد میاں محمد نواز شریف کو معزول وزیراعظم کی حیثیت سے 10 سال کے لیے جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔شو مئی قسمت کہسپریم کورٹ آف پاکستان اگست 2007 میں حکم دیتی ہے کہ شریف برادران پاکستان آنے کے لیے آزاد ہیں۔ یہ فیصلہ ملک میں اک جشن کا سماں پیدا کرتا ہے،مقتدر حلقوں میں خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں اور پھر ستمبر کے مہینہ میں نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے اسلام آباد آتے ہیں لیکن انہیں طیارے سے اترنے ہی نہیں دیا جاتا اور جدہ ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔عدالتی فیصلے کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں۔جلاوطنی اور قیدو بند،پیشی پر پیشی اور بھونڈے الزامات،بے بنیاد اور من گھڑت مقدمات،عدالتی چکر اور نیب کی دھونس دھاندلی سہنے والے میاں محمد نواز شریف پر قسمت کی دیوی ایک بار پھر مہربان ہوتی ہے اور مئی 2013 میں تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو جاتے ہیں لیکن پی ٹی آئی(پاکستان تحریک الزامات) کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی اور دھوکا دہی کے الزامات لگنے شروع ہو گئے،ترقی کی جانب چلنے والے پاکستان میں دھرنے شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ چین کے صدر اور سعودی ولی عہدکا دورہ تک ملتوی کر دیا جاتا ہے۔مقتدر حلقوں کی پشت پناہی جاری رہتی ہے اور ایک نئی لابنگ سے 2014 کے اواخر میں نواز شریف حکومت کو شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جھوٹے انقلاب کا داعی بھی اپنا بھرپور حصہ ڈالتا ہے۔اور پھر اچانک ”پاناما لیکس“کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جو پاکستان کی سیاست میں بھونچال برپا کردیتا ہے۔ بیرونی قوتیں کارگر بنتی ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو دو آف شور کمپنیوں کا بینیفیشل مالک قرار دے دیا جاتا ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل ہوتی ہے اور پھر اپنے سگے بیٹے سے تنخواہ لینے اور نہ لینے کے چکروں میں الجھا دیاجاتا ہے۔یہ سال 2017 تھا جب سپریم کورٹ تین دو کا فیصلہ جاری کرتی ہے اور جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد وزیرِ اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیتے ہیں۔آج کل تھوڑا ناراض ناراض دکھائی دینے والے شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم منتخب کر لئے جاتے ہیں اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت برقرار رہتی ہے۔قصہ ستم یہاں ختم نہیں ہوتا 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ میاں محمد نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دیتا ہے اور ایک نیا بنچ تشکیل پاتا ہے جو سمیع اللہ بلوچ بنام عبد الکریم نوشیروانی کیس میں اتفاقِ رائے سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کو تاحیات قرار دیتا ہے۔عدالتی فیصلوں پر اٹھنے والی انگلیاں کاٹ دینے کی بازگشت میں ایسا سناٹا پایا گیاکہ ”انصاف“ کی اقتدار کے لئے راہ ہموار نظر آنے لگی۔وطن سے کھلواڑ کرنے والے اداکار ایک ایک کر کے رسوا ہوتے دکھائی دیئے۔مشکلیں مجھ پر اتنی پڑیں کہ سب آسان ہو گئیں کے مصداق نواز شریف کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں اب کی بار احتساب عدالت 6 جولائی 2018 کومیاں محمد نواز شریف کی غیر موجودگی میں انھیں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس برس قید کی سزا سنادیتی ہے۔ اسی کیس میں مریم نواز کو سات برس اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا کا نقارہ بجا دیا جاتا ہے۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ لاڈلے کو لا کر سیاسی اقدار اور روایات کی دھجیاں اڑائی گئیں، انتقامی سیاست اور الزامات کی گن گرج روز سنائی جاتی، پڑھنے والے اس چار سالہ نادر دور میں ہونے والی کرپشن،اور ملکی تنزلی کے لئے اتحائے جانے والے اقدامات سے بخوبی واقف ہیں مذید یہاں لکھنا ضروری نہیں۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسی ناکام ہیرو سے ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ تجربہ کرنے والے اسی ہیرو کے ہاتھوں بے نقاب اور رسوا ہوتے ہیں۔روز رسوا ہوتے ہیں، روز نئی کہانیاں سامنے آتی ہیں،روز نئے افسانے سننے کو ملتے ہیں۔جھوٹے بیانیے تراشے جاتے ہیں۔اور پھر وہ دن بھی دیکھا گیا کہ جب عدم اعتماد سے نحوست کو نکال باہر کردیا گیا۔ڈیفالٹ کے دھانے پہنچے ملک کو شہباز شریف بچاتے ہیں۔پی ڈی ایم کے نام سے بنا اتحاد یکسوئی سے ملک چلاتا ہے۔اپنی سیاست کو تباہ ہوتا دیکھنے کے باوجود ملک کی کشتی پار لگانے والوں کی کوششیں کامیاب ٹھہرتی ہیں۔تجربہ کرنے والوں کی نظریں میاں محمد نواز شریف کی جانب لگ جاتی ہیں اور یوں قسمت کی دیوی میاں محمد نواز شریف پر ایک بار پھر مہربان ہوتی ہے اور چار سال دیار غیر میں گزارنے کے بعد 21 اکتوبر کو محب وطن میاں محمد نواز شریف اپنی دھرتی کو بوسہ دینے پہنچ جاتا ہے۔عدالتیں انصاف دیتی ہیں لاہور کا جم غفیرثابت کرتا ہے کہ ”مجھے کیوں نکالا“ کا جملہ کہنے والا میاں محمد نواز شریف حق پر تھا اور ہے۔ملک بھر میں مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی منصوبے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ جب بھی نواز شریف کو حکومت ملی تو بے شمار مسائل کے ساتھ ملی۔ دہشت گردی عروج پر ہوتی تھی، بدترین لوڈشیڈنگ کی عفریت کا سامنا ہوتا مگر تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود وہ ترقیاتی منصوبے مکمل کئے گئے،کئی عشروں سے التوا کا شکار کام دنوں میں کر کے دکھائے گئے۔دوسری جانب
پنجاب بھر میں بلا تفریق ”شہباز شریف“نے سڑکوں کے جال بچھائے، اسکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال تعمیر کیے گئے،طلبہ کے لئے لیپ ٹاپ سکیم اور روزگار کے لئے گاڑیوں کی فراہمی جیسے منصوبے عوام کب بھلا سکتے ہیں۔ نواز دور میں انفراسٹرکچر اور توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہوا۔ 10 ہزار 400 میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل کی گئی۔ سکھر ملتان موٹروے، ملتان شجاع آباد سیکشن،کراچی حیدر آباد موٹر وے، راولپنڈی اسلام آباد، لاہور میٹرو بس، لاہور اورنج لائن منصوبے، ایل این جی درآمد کے منصوبے سمیت متعدد منصوبے مکمل ہوئے۔فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام وہ تاریخی کام ہے جو نواز شریف کی حب الوطنی اور مقبولیت کا ضامن بنا۔نواز شریف کے دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں برطانوی دور سے رائج”ایف سی آر“ جسے کالا قانون کہا جاتا تھا کا خاتمہ ہوا، حکومت نے فاٹا میں اصلاحات متعارف کروانے اور اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے لیے آئینی ترمیم کی منظوری بھی دی۔صوبائی اسمبلی میں فاٹا کے لیے نشستیں مختص کی گئیں۔قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے فاٹا کو خصوصی رقم دی گئی۔اسلامی جمہوری اتحاد بنانے والے میاں محمد نواز شریف نے انہیں بھی ”کبوتر“ دکھا یا ہے جو اس کی سیاست ختم ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے تھکتے نہ تھے جو، ن میں سے ش نکال رہے تھے۔جو رعونت میں تھے اور فرعون کا لہجہ اختیار کئے ہوئے تھے۔زیادہ مقبول ہو جانا بھی بعض اوقات پریشانیوں کا سبب بن جاتا ہے اور یہ پریشانیاں وقتی ہوتی ہیں۔مقبول وہی ہوتا ہے جو سب کو قبول ہوتا ہے۔اسلامی جمہوری اتحاد والا،پاکستان کو 18 ویں معیشت بنانے والا”میاں محمد نواز شریف“ راقم سمیت سب کو قبول ہے۔مدینہ پاک میں اوچھی حرکات کرنے والے،خواب دکھانے والے ہوا ہو چکے اور مثبت خبر یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی نگراں حکومت نے تحریک انصاف کے دور میں بھرتی 1300 سے زائد سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اکاو¿نٹس ریاستی اداروں کے خلاف استعمال ہونے اور ان افراد کو دوسروں کی کردار کشی کے لئے کروڑوں روپے دینے کی تحقیقات کیلئے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)سے جوع کرلیا ہے۔