الج اکانومی آج کی مضبوط بنیاد کل کامضبوط پاکستان! (دوسری قسط) 


ن
کنکریاں۔ کاشف مرزا


حال ہی میں حکومت پاکستان نے ملک کی علمی معیشت کو بڑھانے کیلیے قابل ستاش اقدامات کیے ہیں۔STEAMسانس، ٹیکنالوجی، انجینرنگ، آرٹ، ریاضی پروجیکٹ نے اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری میں نے سکولز قام کیے ہیں، جہاں طلبا کو پرامری سطح پر بنیادی مضامین پڑھاے جاتے ہیں، انکے کیریر کے اختیارات کو بڑھاتے ہوے اور ذمہ دار شہریوں میں مہارت کو فروغ دیا جاتا ہے۔ میٹرک ٹیک پروگرام روایتی اور پیشہ ورانہ تربیت کو رسمی تعلیم کے ساتھ جوڑتا ہے، جبکہ سکولز ای-پراجیکٹ زوم کلاس رومز کے ذریعے ای لرننگ متعارف کرایا جاتا ہے، جس سے تعلیم کو ایک بڑی تعداد کیلیے قابل رسای بنایا جاتا ہے جو فزیکل سکولز میں جانے سے قاصر ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں رہتے ہوے بین الاقوامی معیار کی تعلیم تک رسای کی سہولت فراہم کرتا ہے۔پاکستان ڈیجیٹل ویڑن پالیسی 2019 کامقصد متعدد سرکاری محکموں کو مینول سے ڈیجیٹل ورکنگ سسٹم میں تبدیل کرنا ہے۔ اس میں لینڈ ریکارڈ سسٹم کی ڈیجیٹلازیشن، پاکستان سٹیزن پورٹل کا نفاذ، ٹیکس سسٹم کی ڈیجیٹلازیشن، اوبر اورکریم جیسی رایڈ ہیلنگ سروسز کو شامل کرنا،ٹیلی ہیلتھ سروسز،ورچول ایجوکیشن، ای کورسز، ویڈیو سیشنز، بایو میٹرک سسٹم کا استعمال، پولیس کے نظام میں بہتری، ای چالان سسٹم کا تعارف اوربہت سی دوسری کوششیں میں پاکستان الیکٹرک وہیکل پالیسی ایندھن کی کھپت کو کم کرنے اورموسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلیے الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پرکم ٹیکس کے نفاذ کے ذریعےحاصل کیا جاتا ہے، انکو اپنانے اوراستعمال کرنے کی حوصلہ افزای کرتے ہیں۔ صدارتی اقدام براے مصنوعی ذہانت اورکمپیوٹنگ ایک وفاقی طور پر زیر انتظام پروگرام ہے جسکا مقصدمصنوعی ذہانت اورکمپیوٹنگ سے متعلق سکیمز کو فروغ دینا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی اوراس میدان میں باقی دنیا کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ اسلیے علمی معیشت کو فروغ دینے کی کوششیں ہمارے دور کا دانشمندانہ فیصلہ ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ نی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں کو فروغ دے کرعلم پر مبنی معیشت کی تعمیر کرے۔ یونیورسٹیز اور تکنیکی اداروں کو ہای ٹیک صنعتوں سے منسلک کرنے کیضرورت ہے۔علم واختراع کی حوصلہ افزای کی جاناچاہیے۔حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی بجٹ کو جی ڈی پی کے 4 فیصد تک بڑھاے اورتحقیق اورترقیاتی بجٹ میں بھی اضافہ کرے۔ دانشوروں اورانسانی سرماے کا ایک تالاب بنانے کیلیے اہم عوامی پالیسیوں کیضرورت ہے۔ برین ڈرین کو بھی روکنا چاہیے۔ پاکستان کو سماجی،سیاسی وسماجی و اقتصادی اداروں میں بھی ترقی کی منازل طے کرنے کیضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان کو معیشت کو فروغ دینے اور بدلتے ہوے عالمی اقتصادی رجحانات کا مقابلہ کرنے کیلیے کسی بھی چیز سے زیادہ فکری انقلاب کیضرورت ہے۔ نالج اکانومی پاکستان کو عالمی سطح پر آگے بڑھاے گی اور آنے والی تین دہایوں میں دنیا کی 10ویں معاشی طاقت بن جاے گی۔اسلیے علم ہماری فکری میراث ہے،قوم کی تعمیر کیلیے استعمال کرنے کیضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک، جہاں دنیا کی اکثریتی آبادی مقیم ہے، معیشت کے مختلف شعبوں میں پیداواری صلاحیت کو فروغ دینے کیلیے اعلیٰ ہنر مند افرادی قوت تیار کرکے اور تیز رفتار صنعت کاری کیلیے انکی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے تعلیمی پالیسیوں کو نے سرے سے وضع کرنے کیضرورت ہے۔ حکومت کم سے کم وقت کے اندر تعلیمی سہولیات کو بڑھا کرتعلیم کی مقدارومعیار کو بہتر بنانے کیلیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
پاکستان میں پایدار ترقی اور ترقی کےحصول کیلیے ضروری ہے کہ غربت میں کمی کیلیے امداد جاری رکھی جاے اورسماجی اور اقتصادی انفراسٹرکچر کو ترقی دیجاےجو زیادہ اہم تعلیم ہے۔ پاکستان میں کی سالوں سےغیرمستحکم اقتصادی ترقی تشویشناک ہے۔ اس صورتحال کے ذمہ دار عوامل میں ناموافق معاشی ترقی، سیاسی عدم استحکام، تعلیم کے شعبے میں عدم توجہی، امن و امان کی ابتر صورتحال اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف کم کشش تھی۔ بنیادی طور پر، تعلیم اورمعاشی ترقی، آمدنی کی تقسیم وغربت میں کمی کے درمیان روابط اچھی طرح سے قام تھے۔ تعلیم نے لوگوں کو اپنی آمدنی میں اضافے اورروزگار کے مواقع بڑھانے کیلیے ضروری علم اور ہنر سے آراستہ کیا۔ بڑھتی ہوی عالمی اقتصادی باہمی انحصار اور معاشی ترقی میں علم پر مبنی عمل کی بڑھتی ہوی اہمیت نے تعلیم پر پریمیم اور تعلیمی خسارے سے وابستہ لاگت دونوں میں اضافہ کیا ہے۔تعلیم میں سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل کیلیے دور رس اثرات کے ساتھ ایک طویل مدتی عزم ہے۔ ضروری وسال کی دستیابی کو یقینی بنانے کیلیے تعلیم کے شعبے کیلیے مناسب رقم مختص کی جانی چاہیے، جیسے کہ نصابی کتب، تدریسی امداد، اور انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال حکومت کو اپنے بجٹ میں تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے۔ مالی سرمایہ کاری کے علاوہ، مو¿ثر وسال کی تقسیم بہت ضروری ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان تفاوت کو دور کرنے کیلیے وسال کو مساوی طور پر تقسیم کیا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تمام سکولز کو معیاری تعلیمی مواد تک رسای حاصل ہو۔ معیار، نہ صرف مقدار، مقصد ہونا چاہے. اساتذہ کی ترقی، نصاب پر نظر ثانی، اور ٹیکنالوجی کے انضمام پر توجہ پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بلند کر سکتی ہے۔ کوالٹی ایشورنس میکانزم کا قیام بھی ضروری ہے۔ تعلیم تک عالمی رسای کو یقینی بنانا، خاص طور پر لڑکیوں اور پسماندہ طبقوں کیلیے، ایک اخلاقی ومعاشی ناگزیر ہے۔ طلبا کو سکولز جانے سے روکنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ پیشہ ورانہ وتکنیکی تعلیم کے پروگرام علمی معیشت کیلیے افرادی قوت کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان پروگراموں کو صنعت کیضروریات کو پورا کرنے اور فادہ مند روزگار کے راستے پیش کرنے کیلیے ڈیزان کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو درپیش چیلنجز وسیع ہیں، جن میں وسال کی رکاوٹیں، معاشرتی رکاوٹیں اور نصاب کی خامیاں شامل ہیں۔ تاہم، حل موجود ہیں، جیسے کہ پبلک پرایویٹ پارٹنرشپ، کمیونٹی کی شمولیت، اور اصلاحات کیلیے ایک غیر متزلزل عزم ہے۔پاکستان میں تعلیم کو بحال کرنا اکیلے حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، اسکے لیے مشترکہ کوششوں کیضرورت ہے، جس میں سول سوساٹی، نجی شعبے کی تنظیمیں، ماہرین تعلیم اور بین الاقوامی برادری شامل ہو،انکی اجتماعی شراکت کامیابی کیلیے لازمی ہے۔ تعلیمی احیا کے ذریعے علمی معیشت کیطرف پاکستان کا سفر ایک پیچیدہ لیکن ضروری ہے۔ اپنے لوگوں کو علم اور اختراع کے آلات سے بااختیار بنانے کا وڑن واضح ہے، اسطرح ایک خوشحال اور پایدار مستقبل کو محفوظ بنانا ہے۔ نالج اکانومی کی بنیاد استوار کرنے کیلیے تعلیم کو زندہ کرنے کیلیے آج اٹھاے گے اقدامات کل پاکستان کے راستے کا تعین کریں گے۔(ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن