پاکستانی جامعات ------- تعلیم اور تحقیق

سیّد روح الامین

    پاکستانی جامعات میں اس وقت تعلیم اور تحقیق کی جو حالت ِ زار ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ”پاکستانی جامعات ------ تعلیم او ر تحقیق“ جناب پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل سے پاکستانی جامعات میں تعلیم اور تحقیق کے مسائل اور معیار پر کی گئی سیر حاصل گفتگو پر مشتمل ہے۔ سید عامر اشرف ایم۔ فل کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے نہایت دیانتداری اور جرا¿ت سے اس موضوع پر جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب سے سوالات کیے اور پھر اس انٹرویو کو نہایت مفید اور کارآمد دستاویز بنا دیا۔ اسی (80) صفحات پر مشتمل یہ کتاب عزت اکادمی گجرات نے شائع کی ہے۔ کتاب کا انتخاب سید عامر اشرف نے اپنے والد گرامی سید سراج الدین اشرف کے نام کیا ہے۔ پیش لفظ عامر اشرف نے خود ” تحقیق، چھوڑیے، بس رہنے دیجئے“ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا تعارف جناب ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب نے ”انٹرویو برائے اصلاح احوال تحقیق“ کے عنوان سے بہت جاندار لکھا ہے۔ جس میں ڈاکٹر طاہر مسعود صاحب رقم طراز ہیں:
    ”بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی ان ہی ملکوں میں شامل ہے جہاں اول تو تحقیق اور علم بچھڑے نظر آتے ہیں اور جو تحقیق جامعات ہیں ایم۔ فل اور پی ۔ ایچ۔ ڈی کی سطح پر ہو رہی ہے اس میں بھی اتنے سُقم اور قابل اصلاح پہلو اتنے ہیںکہ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحقیق و تدریس کے اس سارے نظام کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے“ ڈاکٹر طاہر مسعود جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل کے بارے میں لکھتے ہیں: 
    ”ڈاکٹر معین الدین عقیل نے جو تیس چالیس تحقیقی و تنقیدی نیز علمی و ادبی کتابوں کے مصنف ہیں اپنے انٹرویو میں نہایت تفصیل سے جامعات میں ہونے والی تحقیق کے نقائص اور خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ سب کچھ کہہ سکیں اور بتاسکیں، اس لیے کہ انھوں نے ساری زندگی تحقیق کی وادی میں آبلہ پائی کی ہے ، پاکستان اور جاپان کی جامعات سے بہ حیثیت استاد وابستہ رہے اور وہاں کے تحقیقی معیار اور اندازِ کار کے گہرے مشاہدے کی وجہ سے ان کے بیان کی حیثیت ”عینی گواہ“ کی ہے“ سید عامر اشرف صاحب تعلیم اور تحقیق کے موضوع پر جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل سے جو سوالات کیے اور ڈاکٹر صاحب نے مدلل انداز میں ان کے جوابات دئیے، وہ کافی طویل ہیں۔ ایک کالم میں اُن کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ صفحہ نمبر 52پر اس انٹرویو کا ماحصل بھی دیاگیا ہے جس کے چند اہم نکات نذرِ قارئین ہیں۔
٭    ”تحقیقی تربیت کا جو نصاب یا کورس ورک جامعات میں رائج ہے اس کے لئے نصاب کا تعین خود ایچ ۔ای۔ سی کو کرنا چاہیے، جامعات پر نہ چھوڑا جائے ناکہ معیار یکساں اور یقینی قائم رہے۔ جامعات میں کورس ورک کے انعقاد میں خاصی بدعنوانیاں روا رہتی ہیں۔
٭    موضوعات کے انتخاب میں ہماری جامعات میں کوئی افادیت اور مقصدیت نمایاں نہیں۔ یہ گھسے پٹے، فرسودہ اور سرسری و سطحی نوعیت کے موضوعات ہوتے ہیں، جن سے نہ تو متعلقہ علم میں کوئی اضافہ اور فائدہ نظرآ تا ہے نہ ہمارے معاشرے اور ملک و ملت کے مسائل اور ان کے حل کی ان سے کوئی مناسبت نظر آتی ہے۔ پھر اکثر موضوعات میں تکرار نمایاں رہتی ہے۔ نہ ان میں کوئی جدت ہوتی ہے نہ مطالعہ و تجزئیے کا رجحان ان میں نظر آتا ہے۔ 
٭    ایچ ای سی کی ایک مجلس خاص یہ دیکھے کہ جو محقق جس منصوبے پر کام کر رہے ہیں وہ آیا کام کے دوران اپنے موضوع کی پیش رفت اور حاصلات کے بارے میں دو مقررہ سیمینار پیش کر رہے ہیں یا نہیں؟ ان سیمیناروں میں ایچ ای سی کا ایک مقامی نمائندہ ضرور شریک ہو ۔ 
٭    رسمی تقاضوں کے تحت ایچ ای سی نے جو یہ شرط عائد کی ہے کہ محقق اپنے کام کے دوران یا مقالہ پیش کرنے سے پہلے کم از کم دو تحقیقی مقالے کسی منظور شدہ معیاری تحقیقی مجلے میں ضرور شائع کرے لیکن اس شرط پر دیانت داری سے کم ہی عمل ہوتا ہے۔
٭    مقالہ پیش کرنے سے پہلے اس مقالے کو اس کے اسلوب اوررسمیات کے لحاظ سے جامعہ کی یاایچ ای سی کی اس مقصد سے قائم ایک مجلس دیکھے جس کی منظوری کے بعد مقالے کو پیش کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ باہر کی دنیا میں اس کی جِھد نہ اڑے۔ 
٭    مقالہ پیش ہونے کے بعد ممتحن کے تقرر کے لئے نگران مقالہ سے نام نہ لیے جائیں بلکہ یہ کام جامعہ کی بلکہ ایچ ای سی کی ایک مجلس انجام دے ۔ ممتحن حضرات کی جو آراءموصول ہوں وہ سب سے پہلے ایچ ای سی کی قائم کردہ متعلقہ ایک مجلس میں جمع ہوں یا جامعہ ہی کی متعلقہ مجلس میں موصول ہوں۔ 
    امتحان کے ذیل میں پہلے کبھی جو ایک زبانی امتحان کی روایت رہی ہے ۔ چند یونیورسٹیوں میں اب تک یہ باقی ہے جو قابل مذمت ہے ۔ افسوس کراچی یونیورسٹی میں اب تک یہ روایت باقی ہے۔ 
٭    پھر ایچ ای سی نہ مقالات یا جامعات میں ہونے والی تحقیقات کے Impact Factorکا گوشوار ہ مرتب کرتی ہے نہ ان کی Indexingکا کوئی باقاعدہ اہتمام اس سے ممکن ہو سکا ہے۔ یوں ایچ ای سی ہر طرح سے اپنے مقاصد میں بڑی حد تک ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ 
    مختصر یہ کہ سید عامر اشرف مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے بڑی محنت سے نابغہ روزگار ڈاکٹر عقیل صاحب سے تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے سوالات کیے اور عزت اکادمی گجرا ت نے بڑے اہتمام کے ساتھ خوبصورت مجلد میں کتاب کو شائع کیا۔ اس کتاب کو ایم۔ اے، ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی کے نصاب کا حصہ ہوناچاہیے۔

uuu

ای پیپر دی نیشن