خیر و شر کی دنیا 


بڑی ہی عجیب دنیا ہے بڑا طلسماتی سنسار ہے ۔۔یہ جہاں ۔جتنا خیر کی پاکیزگی سے پاکیزہ نظر آتا ہے اتنا ہی شر کی برائی کی گندگی غلاظت سے بھرا ہوا ۔اس دیار میں بسنے والا بشر ۔انسان جتنا پاک اتنا ہی گندہ ۔جتنا ۔ خیر کی روشنی سے بھرا اتنا ہی شیطانی برائی میں لتھڑا غلیظ ۔۔کہیں خالق کایئنات کی محبت سے عبادت کے نور سے اتنا نورانی کہ اسکی نورانیت کے سامنے فرشتوں کی نورانیت بھی ماند پڑتی نظر آتی ہے ۔۔ کہیں شیطان کی پیروی کرتا اتنا پست اتنا قبیح کہ شیطان بھی کم شیطان لگتا ۔۔۔یہی دو طاقتیں ہیں دنیا میں خیر اور شر کی ۔۔ شر کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو خیر کی طاقت کے سامنے بے بس ہوتا ہے ۔۔ برائی کتنی طاقت ور کیوں نہ ہو خیر کے سامنے اسے زیر ہونا پڑتا ہے 
یہ سلسلہ ازل سے ابد تک رہے گا ۔۔۔  
کبھی مجھے لگتا ہے احساس کے سفید کینوس پر گُمان کے رنگوں کے رنگوں سے بننے والے یقین کے گُلوں کی تصویر بہت خوبصورت ہوتی ہے کیونکہ گُمان کے رنگ بڑے گہرے اور  رنگیلے ہوتے ہیں اور اگر احساس کے کینوس پر بدگمانی کے کالے دھبے پڑ جائیں تو وہاں گلوں کی جگہ خار اور کیکٹس کی تصویر بنتی ہے جو دل میں یوں چُبھتے ہیں کہ روح کی پور پور زخمی ہو جاتی ہے۔
ابھی تو اے دوستا
وقت نے لمحوں کو درد کے ترازو میں تول رکھا ہے
اسی لئیے تو کم بختاداسی نے دل کی سماعتوں میں زہر گھول رکھا ہے..
اور پھر تبھی اس عالم میں لگتا ہے کہ زندگی نے انسان کو بند غار میں دھکیل دیا ہے ۔۔ جہاں سارے چہرے تاریکی میں تاریک دکھائی دیتے ہیں انکے کالے کرتوت کالی نظریں کالی بدصورتی لاعلمی کی تاریکی چھپا لیتی ہے کچھ ظاہر نہیں ہونے دیتی۔۔کبھی آگہی کی ایسی روشنی کہ آنکھیں چکا چوند ہو جائیں اور پھر انسانوں کی بد نگاہیاں بد دیانتیاں بد صورتیاں نہیں چھپتی سب سامنے لے آتی ہے ۔۔ آگہی کا درد سہتا ہوا انسان ۔بس دم بخود رہ جاتا ہے ۔۔کوئ رشتہ کوئی تعلق۔ کوئی مان کوئی محبت کچھ بھی نہیں سدا ساتھ رہتا ۔۔ پل میں محبتیں نفرت میں بدل جاتی ہیں ۔۔ پل میں خون پانی بن جاتا ہے ۔۔ پل میںزندگی کے خوبصورت رشتے بد صورت بن جاتے ہیں۔۔کراہت سے بھر جاتے ہیں غلاظت کا ڈھیر نظر آتے ہیں۔۔بس رشتوں کے دریدہ دامن میں سر بریدہ جذبات منہ چھپاۓ محبت کی موت پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں ۔۔ایسا پر آشوب دور ہے جہاں جسموں میں بہتا سرخ خون گدلا پانی بن چکا ہے صرف دلوں میں حسد کینہ بغض اور لالچ رکھنے سے ۔۔۔اسی لئیے مجھے برملا یہ کہنا پڑتا ہے کہ  زندگی کے شجر پر محبت کی ڈالیوں پر اُگتے رشتوں کے پتے لاتعلقی کی ہوا چلنے پر ٹوٹ جاتے ہیں ۔کوئی تعلق سدا بہار نہیں رہتا ۔ لوگ محبت کے شجر کو اپنے ہاتھوں سے لگا کر اس کے ساۓ میں بیٹھ کر عمر بِتانے کی تمنا کرتے ہیں مگر وہ وقت آنے سے پہلے ہی بد گمانی کی منہ زور آندھیاں اُسے اُکھاڑ پھینکتی ہیں یہ سمجھاتے ہوۓ کہ ہر جذبے کو زوال ہے ۔۔ ہر تعلق کی ایک عمر ہوتی ہے ہر رشہ فانی اور ختم ہو جانے والا ہے ۔کوئی رشتہ سدا ساتھ نہیں چلتا ۔۔سوچ کے سفر میں تضاد آتے ہی محبت کے راہی اپنا راستہ الگ کر کے جدائی کے موڑ مڑ جاتے ہیں اور محبت جدائی کے اس موڑ پر تن تنہا بے آسرا کھڑی رہ جاتی ہے ۔۔ اور بس انسان کا دل محبت کا مدفن بن جاتا ہے 
شاز ملک  فرانس

ای پیپر دی نیشن