آجکل برگر بچوں کی تربیت موبائل کے سپرد کیوں ہے ؟

اس کائنات کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ "تربیت" ہے جو والدین اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں۔ بچوں کی ٹریننگ میں اپنی توجہ، خون پسینے کی کمائی اور نہ جانے کتنی قربانیاں شامل ہوتی ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جو بوو¿ گے وہی کاٹو گے۔ یعنی اگر بچوں کی آبیاری اخلاقیات کے سانچوں میں کی گئی ہوگی تو یقیناً بڑھاپے میں اولاد نہ صرف باعث سکون اور سہارا ہوگی بلکہ بہترین توشہ آخرت ثابت ہوگی۔ 
قارئین اس ڈیجیٹل دور میں ہمارا معاشرہ عجب ڈگر پر گامزن ہو چکا ہے۔ دراصل ہمیں سوشل میڈیا کا صحیح معنوں میں استعمال نہیں کرنا آیا۔ آجکل کے والدین اولاد کی تربیت سے ذیادہ وقت اور فوقیت سوشل ایپس کو دیتے ہیں۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ 70 فیصد پاکستانیوں میں ایکٹر بننے کی خواہش دل ہی دل میں پنہاں رہتی ہے۔ خانہ خراب ہو یورپ کا کہ اس نے سوشل میڈیا ایجاد کیا اور خود اس سے اجتناب کیا۔ لہذا اب یہ بلا کسی وبا کی طرح ہمارے گھروں پر مسلط ہو چکی ہے۔ ٹک ٹاک پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا ہمارا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔ شیرخوار بچے سے لیکر 80 سالہ بابا جی تک سمارٹ فون تھامے اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ نتیجتاً بچے جن خصائل کا مشاہدہ کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔ ہوش سنبھالتے ہی سوشل میڈیا سنبھال لیتے ہیں۔ پھر جناب وہ والدین کی ایک نہیں سنتے۔ سوشل میڈیا کو قبلہ بنا لیتے ہیں۔ بچوں کے دماغ وہیں سے چارج ہوتے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز نہیں کر پاتے۔ ضدی، بدگمان، گھمنڈی، شاطر، بدتہذیب ہونا ان بچوں کی گ±ھٹی میں پڑ جاتا ہےاور والدین۔۔۔۔" اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" کے مصداق کف افسوس مل رہے ہوتے ہیں۔ 
ٹھیک آج سے 25 سال قبل والدین سے بات کرتے وقت بچوں کی آنکھیں احترام سے نیچی ہوتی تھیں۔ والدین سے قیل قال کرنے والی اولاد کو بدزبان کہا جاتا تھا مگر عصر حاضر میں۔۔۔ یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ " ہمارے بچے تو ہم سے ذیادہ سمجھ دار ہیں "۔ 
قارئین یہی وہ نقطہ آغاز ہے جو بچوں کو خودسر بناتا ہے۔ اگر آج کل کے بچے کمپیوٹر اور موبائل سسٹم کے گرو ہیں تو ان پر اپنی کمزوری ہرگز عیاں نہ کیجئے۔ پھر بچے والدین کو پینڈو اور بےوقوف گردانتے ہیں۔۔۔ ان سے مشورہ لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔
سب سے بھاری ذمہ داری ماو¿ں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو سونے کا نوالہ کھلائیں لیکن نگاہ شیر کی رکھیں۔ بچے کن سرگرمیوں میں مشغول ہیں، کدھر رحجان رکھتے ہیں، کیا دیکھتے ہیں۔ ماو¿ں کو علم ہونا چاہیے۔ بدقسمتی کہیے یا تلخ بات کہ کچھ خواتین کھانے بنانے سے ذیادہ تو ویڈیوز بناتی ہیں۔ امور خانہ داری بسا اوقات نوکروں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ایسے حالات سے بچے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ماو¿ں کے ساتھ ساتھ والد اس فریضے سے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔دونوں کا معاملات میں چیک اینڈ بیلنس رکھنا ازحد ضروری ہے۔ اگر آفس یا کاروباری مراکز سے واپسی پر بھی والد صاحب فون پر خوش گپیوں میں مصروف ہونگے تو بچے پھر کس سے جھجک محسوس کریں گے ؟ ڈر اور پیار دونوں سے بچوں کی تربیت کو چار چاند لگتے ہیں۔ 
قارئین آپ بچوں کو تہذیب کے تمام اسباق یکبارگی نہیں رٹوا سکتے۔ احسن طریقے سے آہستہ آہستہ اچھی باتوں کو ازبر کروائیں۔ والدین کو تہذیب کے ضمن میں چھوٹے چھوٹے الفاظ کا انتخاب کرنا ہوگا جیسے سلام کرنا، شکریہ کہنا وغیرہ۔ آپ ان کے ساتھ ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل ڈسکس کریں۔ انہیں سوالات کرنے سے نہ ٹوکیں۔ بامقصد کہانیاں سنائیں۔ بچوں کے اوقات کار متعین کیجئے کہ اتنے گھنٹے پڑھنا ہے اور اتنے گھنٹے کھیل کود اور اتنے گھنٹے والدین کی موجودگی میں گیمز کھیلنی ہیں۔ 
آج کل جنریشن گیپ کےجھانسے میں پھنسا کر والدین اور بچوں کے رشتے کو دوستی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے اس سے بچوں کی نگاہ میں والدین کا احترام بڑی سرعت سے کم ہو رہا ہے۔مستقبل کے معماروں کے والدین سے ضروری التماس ہے کہ اپنے بچوں کو معاشرے کا ایک بہتر فرد بنانے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کر دیجئے۔ بچوں کو سکھائیے کہ کبھی کبھار خاموش رہ کر لوگوں کی باتیں سننے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی انعام کی توقع کیے بغیر کسی کی مدد کرنا ایک اچھا عمل ہے۔ بچوں کو بڑوں سے بات چیت کا سلیقہ دیجئے کیونکہ بچوں کی تربیت آپ نے کرنی ہے نہ کہ سوشل میڈیا نے۔ یادرکھیے کہ اولاد کی بہتر خطوط پر تربیت نہ کرنا انہیں قتل کرنے کے مترادف ہے۔

ای پیپر دی نیشن