ہفتہ‘ 12 ربیع الثانی 1445ھ ‘  28 اکتوبر 2023ئ

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 71 کروڑ ڈالر قرض کی قسط کیلئے مذاکرات 2 نومبر کو ہونگے۔ 
خدا خیر کرے! ابھی قوم پہلی وصول کی گئی قسطوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے‘ یہ اقساط حاصل کرنے سے پہلے اور اس کے بعد بھی آئی ایم ایف کے ڈومور کے تقاضے پورے کرتے کرتے عوام کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے‘ اب اگلی قسط کیلئے تو شاید عوام کی لاشوں پر ہی آئی ایم ایف کی خوشی کا اہتمام کیا جائیگا۔ آئی ایم ایف تو بارہا باور کرا چکا ہے کہ ہماری شرائط کا بوجھ عوام کے بجائے اشرافیہ طبقات اور حکمرانوں پر ڈالا جائے مگر اسکی اس شرط کے سوا ہمارے مربی رہنما اسکی تمام شرائط مانے جا رہے ہیں۔ اب دیکھیں 2 نومبر کو سجائی گئی مذاکرات کی میز پر کیا کیا فرمائشیں سامنے آتی ہیں جسے ہمارے کرتا دھرتا من و عن تسلیم کرنے پر آمادہ ہونگے اور اس کا سارا بوجھ ہمیشہ کی طرح بے چارے ناتواں عوام کی طرف منتقل کیا جائیگا۔ ہماری درخواست ہے کہ اب آئی ایم ایف کی مزید کوئی فرمائش پوری نہ کی جائے‘ اگر بے چارے عوام کی لنگوٹی بھی اتر گئی تو اسے موسمی تبدیلیوں کے بداثرات سے تعبیر کرکے دنیا کو مطمئن کیا جائیگا کہ درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے عوام بغیر لباس رہنے پر مجبور ہیں۔ آخر ہماری ایسی کیا مجبوریاں آئی ایم ایف کے ہاتھ آئی ہوئی ہیں کہ ہم برادر سعودی عرب‘ عرب امارات اور چین جیسے اپنے مخلص دوستوں کی بلامشروط معاونت چھوڑ کر کشکول لئے آئی ایم ایف کے در پر کھڑے ہیں۔آئی ایم ایف جن کڑی شرائط پر ہمیں قرض دینے پر آمادہ ہوتا ہے‘ اس میں اس کا مفاد تو شامل ہے ہی مگر اسکے سخت رویے کے پیچھے ہمارے مربی دوست امریکہ کا مخصوص ایجنڈا بھی ہو سکتا ہے جو آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کا مزید گلا گھوٹنا چاہتا ہے۔ بہرحال 
دام ہر موج ہے‘ حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے ”عوام پہ‘ قہر ٹوٹنے“تک
امید تو نہیں‘ پر خورے ‘ آئی ایم ایف اے ملنے والی نعمتوں کی بارش کا کوئی ایک قطرہ عوام کے منہ میں بھی آن گرے۔
٭....٭....٭
کچے میں مشترکہ اپریشن‘ پنجاب‘ سندھ کے وزرائے اعلیٰ کی زیرصدارت اجلاس۔ 
کچے کے ڈاکو اب کچے نہیں رہے‘ وہ خیر سے اب پکے ہو چکے ہیں۔ اسی لئے تو کئی مشترکہ اپریشنز کے باوجود ان کا خاتمہ نہیں ہو پارہا۔ حیرت ہے کہ کس دیدہ دلیری سے وہ ریاست کے اندر ریاست قائم کئے بیٹھے ہیں اور ہمارے کرتا دھرتا بے بس نظر آرہے ہیں۔ اصل معاملہ کیا ہے‘ یہ تو خدا ہی جانتا ہے مگر بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ کچے کے ڈاکوﺅں کی کہیں نہ کہیں سے بااثر طریقے سے سرپرستی کی جا رہی ہے ‘ ورنہ جو فورسز دہشت گردوں کا خاتمہ کر چکی ہوں‘ بڑے بڑے ملزمان کو کیفر کردار کو پہنچا چکی ہوں‘ ان کیلئے یہ ڈاکو کیا حیثیت رکھتے ہیں اور وہ بھی کچے کے۔ اس سے قبل بھی رینجرز سمیت پنجاب اور سندھ پولیس ان کیخلاف مشترکہ اپریشن کر چکی ہیں مگر ان پر قابو نہ پایا جا سکا۔ سکیورٹی افسران کا کہنا ہے کہ ان ڈاکوﺅں کے پاس جدید اسلحہ ہے جن کا پرانے اسلحہ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ بات تو سچ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہماری پولیس کو تو کئی بار اپ گریڈ کیا گیا ہے‘ انکی پرانی یونیفارم اتا کر نئی پہنائی گئی حتیٰ کہ جرابیں بھی تبدیل کرنے کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہی ہیں۔ وہ نئی یونیفارم اور جرابیں پہن کر بھی کچے کے ڈاکوﺅں پر قابو نہیں پا سکی تو پھر سکیورٹی افسران کی بات میں وزن نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جدید اسلحہ کا مقابلہ یونیفارم اور جرابیں تبدیل کرکے تو نہیں کیا جا سکتا‘ اس کیلئے پولیس کو جدید اسلحہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ عقدہ کھلنے کے بعد اب انتظامیہ کو یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ اگر کچے کے ڈاکوﺅں پر قابو پانا ہے تو پولیس کو نئی یونیفارم نہیں‘ نئے اسلحے سے لیس کرنا ہوگا‘ پھر چاہے پرانی یونیفارم اور جرابیں پہن کر مقابلہ کیا جائے‘ ہماری پولیس بالآخر ان پر قابو پالے گی۔ 
٭....٭....٭
نوازشریف قصور میں پہلے جلسے سے انتخابی مہم کا آغاز کریں گے۔ 
لوجی ! پھر وہی نئی بوتل میں پرانی شراب ڈال کر عوام کو پلائی جائیگی اور مزے کی بات یہ کہ عوام بھی جام بھر بھر پئیں گے کیونکہ اب وہ بھی اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ ہونا وہی ہے جو ہمارے ساتھ آج تک ہوتا چلا آیا ہے‘ مگر کیا کریں وہ بھی اپنے اپنے رہنماﺅں کی ایسی دل خوش کن تقریروں سے اس لئے محظوظ ہوتے ہیں کہ چلو حقیقت میں نہ سہی‘ تقریروں میں ہی سہی‘ دل کو تسلی تو ہوتی ہے کہ ہمارے رہنما ہمارے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ اسی خمار میں پورا جلسہ اٹینڈ کر لیتے ہیں۔ میاں صاحب کے آنے سے انتخابی رونقوں کا آغاز ہو چکا ہے‘وہ تین بار اس ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر بدقسمتی سے انہیں ایک بار بھی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اگر انہیں پورا موقع دیا جاتا تو ممکن ہے وہ اس ملک و قوم کیلئے کچھ کر جاتے۔ اب وہ ایک بار پھر اپنی سزاﺅں کی ”عدت“ پوری کرکے وطن لوٹے ہیں‘ وہ اپنی اس بار کی تقریروں میں جو کہیں گے سچ کہیں گے اس لئے قوم کو ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔ ویسے بھی وہ سزاﺅں کی بھٹی میں جل کر کندن ہو چکے ہیں۔ میاں صاحب کو بھی اب اس بات کا پوری طرح ادراک ہونا چاہیے کہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔ قوم نے بھی ان سے ایک بار پھر امیدیں باندھ لی ہیں‘ اب انہیں قوم کو ہرگز مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ 
٭....٭....٭
 نگران وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ 
جناب! اگر ملک میں واقعی سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع ہیں تو اب تک بیرونی سرمایہ کاری شروع کیوں نہیں ہو پائی۔ کئی ممالک نے پاکستان میں شدومد کے ساتھ سرمایہ کاری کا عزم ظاہر کیا ہوا ہے مگر آنے پر کوئی آمادہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارا اپنا سرمایہ کار حالات سے پریشان ہو کر مایوس ہو چکاہے۔ صنعت کار ابتری کا شکار ہیں‘کئی بڑے تاجر اور صنعت کار دوسرے ملکوں میں ہجرت کر گئے‘ نو جوان طبقہ بے روزگاری سے تنگ آکر بے راہ راوی کا شکار ہو گیا‘ چوری‘ ڈکیتی‘ راہزنی کھلے عام ہو رہی ہے‘ ملک میں نہ بجلی ہے نہ گیس‘ اگر ہے تو اس قدر مہنگی کہ صنعت کار اپنی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں کر پارہے۔ ایسے میں وزیر خارجہ کو ملک میں سرمایہ کاری کیلئے سب ہرا ہی ہرا نجانے کیوں نظر آرہا ہے۔قوم تو ریلیف‘ بے پناہ مواقع‘ نوکریاں‘روشن مستقبل کے سہانے لالی پاپ کھا کھا کر رج چکی ہے‘ مگر غیرملکی سرمایہ کار اس جھانسے میں ہرگز نہیں آئیں گے جب تک کہ انہیں یہاں کے تاجر اور صنعت کار خوشحال نظر نہ آئیں‘ جب تک یہاں کا ہر نوجوان برسر روزگار نہ ہو جائے‘ وہ یہاں سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ خوش قسمتی سے اگر کوئی سرمایہ کار آبھی جائے تو اسے آئے روز کے احتجاج ‘ جلسے جلوس نہیں جینے دیں گے۔ کبھی فلاں مارکیٹ بند تو کبھی فلاں روڈ بند‘ کبھی ہال روڈ تو کبھی سپر مارکیٹ بند۔ ان حالات میں کون باہر سے آکر اپنا سرمایہ ڈبوئے گا۔ اس لئے جب تک پاکستان میں واقعی سرمایہ کاری کیلئے حالات سازگار نہیں ہوتے‘ سیاسی اور اقتصادی حالات میں استحکام نہیں آجاتا‘ ہمارے وزراءکرام کو ”بے پناہ مواقع“ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...