فلسطین میں سسکتی انسانیت کی فریاد

Oct 28, 2023

جویریہ اعجاز۔۔۔۔ہست و بود

غزہ میں جاری بمباری اور دھماکوں کے بعد کیمرے کی آنکھ نے ایسے اذیت ناک اور انسانیت سوز مناظر قید کیے جن کو دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے ۔ مظلوم فلسطینیوں کی کرب ناک حالت اور دن بدن سنگین ہوتی صورتحال کے جواب میں صرف زبانی جمع خرچ دنیا کے متعصب اور مفاد پرست رویے کو پوری طرح عیاں کر رہا ہے ۔ سماجی تنظیموں اور نام نہاد انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں سے بھری دنیا میں غزہ کی پٹی پر گونجتی چیخیں اور مسلسل بلند ہوتے دھویں کے بادل ، گھروں اور دیگر عمارتوں کے ملبے ،انسانیت کے علمبرداروں کی دوغلی پالیسی کی قلعی کھول رہے ہیں ۔ سات ارب انسانوں کے حاکم اپنی نرم دلی کا پرچار کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اگر کوئی جانور بھی تکلیف میں ہوتو شہر کی ساری مشینری کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے یعنی جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی نا قابل معافی ہے ۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے مناظر میں ایک طرف ایک مجبور بے بس باپ اپنے شہید ہونے والے نو عمر بیٹے کے اعضا پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر لا رہا ہے ،ایک بچہ بے چینی سے ملبے کو اپنے ہاتھ سے کھودنے کی کوشش کر رہا ہے کہ شائد اس کے خاندان کا سرغ مل جائے دوسری طرف درد اظہار کچھ اس طرح کیا جا رہا کے اسرائیلی سپاہیوں کو گلوٹن سے پاک کھانا دستیاب نہیں ۔ غزہ کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی ہے ۔ تقریبا چالیس کلومیٹر طویل اور آٹھ کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی پر جنگ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اسرائیل نے پورے علاقے کو جس طرح جبری محاصرے میں لے رکھا ہے وہ ظلم و جبر کے حوالے سے تاریخِ انسانیت کی بدترین مثال ہے ۔ ان پندرہ سال میں مظلوم فلسطینوں پر یہ پندرھواں جنگجو یانہ حملہ ہے ۔اور 2007سے ہی یہ علاقہ محاصرے میں ہے جس کے نتیجے میں اقتصادی اور معاشی حالت پہلے ہی تنزل کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے ۔اقوام متحدہ نے 2015میں رپورٹ جاری کی تھی کہ اگر معیشت کا یہی حال رہا تو اگلے پانچ سال میں غزہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا ۔مگر ان تمام گزرے سالوں میں بے روز گاری غربت اور دیگر سماجی مسائل سے لڑتے غزہ کے شہری اسرائیلی جارحیت کا بھی مسلسل بہادری سے مقابلہ کرتے آئے ہیں اور گزشتہ کئی دنوں سے بھی اسرائیلی افواج کے سفاک اور وحشیانہ حملے برداشت کر رہے ہیں ۔پہلے غزہ اور مصر ± کے درمیاں رفح کراسنگ پر فضائی حملہ اور نارتھ میں جبالیہ ریفیوجی کیمپ پر حالیہ بمباری تمام بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔جنگی جرائم اپنے عروج پر ہیں اور اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تمام قرار دادیں مسترد کی جا چکی ہیں ۔ جنیوا کنونشن کے مطابق کسی بھی آبادی کو اجتماعی سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی بھی جنگ کے دوران خواتین ،بچوں اور عمارات کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا ۔مگر اسرائیل اپنی طاقت کے زعم میں اپنے توسیعی منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھا نے اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اسرائیلی آرمی کے ترجمان کا حالیہ بیان کہ ”ہم غزہ پر سینکڑوں ٹن بم گرا رہے ہیں، توجہ تباہی پر ہے، درستگی پر نہیں “اسرائیل 
کے عزائم پوری طرح واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور بظاہر دنیا میں امن کے ٹھیکے دار اس عمل میں سہولت کاری کا کام سر انجام دے رہے ہیں ۔ اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو حماس کی جانب سے “طوفان الاقصیٰ‘ نامی آپریشن کی جوابی کاروائی قرار دیا جا رہا ہے اور حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ اسرائیل کے دعوے کے مطابق حماس کی طرف سے حملے میں اس کے 1400شہری ہلاک ہوئے مگر اس بات کے کوئی واضح ثبوت بھی پیش نہیں کیے گئے ۔اسرائیلی میڈیا اپنے عوام کو اشتعال دلوانے کے لیے چند جعلی ویڈیوز کا سہارا لے رہا ہے تا کہ اپنے عوام کو تمام مکروہ اعمال کا جواز پیش کیا جا سکے ۔ اب تک غزہ میں پانچ ہزار سے زائد عام شہری جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اسرائیل کے جنگی جنون کا نشانہ بن چکے ہیں اور اور ایک ہزار سے زائد لاپتہ ہیں ۔ قتل و غارت کے اس عمل کو روکنے کی کوئی کوشش تا حال کامیاب نہیں ہو سکی ۔ او آئی سی کا حالیہ ہنگامی اجلاس بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور جارحیت کی مذمت تک محدود رہا ۔ عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کے باوجود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی سوائے مسئلے کے حل پر زور دینے کے علاوہ جنگ بندی اور امداد کی فراہمی پر کوئی عملی اقدام نہیں کر سکی ۔ اسرائیل کے پروپیگنڈے کے باوجود حکومتی سطح پر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے اکثر ممالک کے عوام نے بھی اس نسل کشی کو نہائیت ظالمانہ اقدام قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کے حق میں اجتماعات کر کے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ جتنی چاہے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر یں ظلم کسی صورت چھپا یا نہیں جا سکتا ۔۔ مگر کیا صرف اتنا ہی کافی ہوگا ؟ فلسطین میں سسکتی انسانیت کی فریاد تمام دنیا کے لیے لمحہ فکریہ اور باعث ندامت ہے ۔

مزیدخبریں