’’ـاے جذبہ ِ دل گر مَیں چاہوںـ‘‘

Oct 28, 2024

نگہت لغاری

یہ مکمل شعر اِ س طرح ہے: 
اے جذبہ دل گر مَیں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کیلئے دوگام چلوں اورسامنے منزل آجا ئے 
یہ شعر علامہ اقبال کے ایک شعر کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ بہزاد لکھنوی صاحب کو اِس نجیب شعر کی رشہ داری پر فخر کرنا چاہیے۔ علامہ اقبال کا جُرأتِ گفتار سے بھرا یہ شعر یوں ہے۔ 
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے  پہلے 
خدا بندے سے خود پوچھے بتاتیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال کا یہ شعر اُن کی نظمیں شکوہ جواب ِ شکوہ جو جرأت بیباکی اَور محبتِ خدا سے تربتر نظمیں ہیں اُن کا قریبی رشتہ دار ہے ۔ بہر حال انسان چونکہ حقائق کے مطابق خلیفہ خدا اَور دنیا میں نائب خدا بناکر بھیجا گیا ہے۔ اِس لیے پروردگار ِ کائنات نے یقینا اپنی طاقت و اختیار کا کچھ حصہ اُسے ضرور عطا کیا ہے۔ ورنہ ایسے اشعار نہ لکھے جاتے اور انسان ایسے ایسے ناقابل یقین کارہائے نمایا ں نہ کر پاتا جو رو ح پذیر ہوئے سائنسدانوں ، دانشوروں ، فلسفوں اور صوفیا نے اپنے اپنے کاموں سے اِس سند کی تصدیق کی ہے جسے کسی صورت رَد نہیں کیا جاسکتا ۔ مگر اصل حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ انسان بیچارے کے گلے میں شناختی کارڈ کی صورت میں ایک ترازو بھی ڈال دیا گیا ہے۔ جس کے ایک پلڑے میں طاقت اور اختیار کا وزن ہے اور دوسرے پلڑے میں بے اختیاری اور بیچارگی کا سامان رکھ دیا گیا ہے۔ طاقت والا پلڑا  جب حرکت میں آتا ہے تو انسان آسمان کے پار اور زمین کی پاتال میں اُتر کر رازوں کے سارے ہیرے جواہرات کندھے پر ڈال کر ثابت سالم باہر نکل آتا ہے۔ اَور اُسے خود اپنی اِس اعلیٰ کارکردگی پر یقین نہیں آتا مگر جب بے اختیاری اَور بیچارگی کا پلڑا بصورتِ آئینہ سامنے آتا ہے تو پھر کوشش کے باوجود ( مرض اور مرگ کی صورت میں ) اپنے چہرے سے مکھی بھی نہیں اُڑا سکتا ْ  ۔ بہر حال کائنات بھر میں چونکہ حالات انسان کی طاقت کے باوجود کنٹرول سے باہر ہیں اِس لیے اِس مایوسی کو مزید نہیں بڑھا ؤں گی ۔ پلڑے میں رکھے کارآمد مال کی بات کروں گی  تاکہ حوصلے برقرار رہیں ورنہ موجودہ انسان اُس کی سوچ اور اعمال بد نے سخت مایوسی میں ڈبو رکھا ہے لیکن آج آپ کو کچھ اُن لوگوں کے بارے میں اُن کے کچھ دلچسپ باتیں سنانا چاہتی ہوں اِس اُمید کے ساتھ کہ شاید آپ بھی ہم بھی صرف طاقت کے پلڑے پر ہی اپنی طاقت و توجہ مرکوز رکھیں اِن لوگوں کے حالات پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا۔ ابھی بھی وہ لوگ موجود ہیں جنھوں نے اپنی مثبت خواہشات کیلئے اگر جواب بھی دیکھے تو اپنی پوشیدہ طاقتوں ( جو ودعیت کی گئی ہیں ) کو بروئے کار لاکر اپنے خوابوں کو حقیقت بنا ڈالا یہ حقیقت اُن کی قوتِ اِرادی کامال تھا۔ بس اپنی طاقت پر یقین محکم ہوناضروری ہے یہی  یقین محکم ہی انسان کے خمیر میں شامل  وہ طاقت ہے اَور یہی خدا ہے بس اُس سے مدد مانگنے کا قرینہ اور سلیقہ آنا چاہیے ہمیں اِسی قرینے اور سلیقے کی کھوج میں ہر وقت مبتلا رہنا چاہیے۔ حضرت یونس ؑ جو ایک طاقتِ پیغمبرانہ رکھتے تھے انہیں بھی جب مچھلی نے نگل لیا تو انہوں نے کہا؛
 (اے اللہ مجھے اِ س اندھیرے سے نکال ۔ !تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں، تیر ی ذات پا ک ہے، بے شک میں ہی قصوروار ہوں)۔ اور اللہ نے اُنہیں رنج سے نجات دیدی ۔ خالقَِ کا ئنانت کی نگاہ میں اُس کی ساری مخلوق برابر ہے۔ اِس لیے اُس کی کائنات میں جو انسان بھی اپنی طاقت کو استعمال کرکے کامیاب و کامران ہوا اُن کی کاکردگی میں کسی مذہب یا کسی فرقے کا کوئی تعلق نہ دیکھا جائے ۔
 سب سے پہلے اپنے بابائے قوم کی قوتِ ارادی کا صِلہ دیکھیں۔ لیکن اپنے ارادے سے پہلے جو یقینا ایک مشکل بلکہ بعض اوقات ایک ناممکن مرحلہ نظرآتا ہے یہ بات بار بار ذہن میں دھرائیں کہ خالق ِ کائنات نے ہر ہر چیز اور حالات کی وضاحت کردی ہے۔ اس نے قرآن میں کہا ہے ’’فَاِانَّا معہ العُسرِیُسرا‘‘ یعنی ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اِسی لفظ کی تکرار انسان کو جادوئی طاقت عطاکردیتی ہے ۔ جن لوگوں نے اپنے ناقابل ِ یقین خوابوں کو حقیقت بنایا وہ یہ ہیں ۔دھان پان بیماری زدہ بابائے قوم نے جب محسوس کیا کہ مسلمان ہندوؤں کے ساتھ رہنے سے ساری عمر نسلوں تک بے قرار ، بے وقعت اور پریشان رہیں گے تو انہوں نے خواب دیکھنا شروع کردیا ایک خوبصورت بااختیار اور طاقتور الگ ملک کا ۔ تاریخ کو جاننے اور دیکھنے والے بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ بابائے قوم نے یہ خواب کن حالات میں دیکھا مگر وہ اپنے اِس خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش میں سرگرداں رہے اور صحت اور زندگی کا مول دے کر خواب کو حقیقت میں بدل دیا جو آج پوری پاکستانی قوم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے ۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کچھ خاص کام کرنے والوں کو خدا کی طر ف سے حیران کن غیبی امداد مہیاکردی جاتی ہے یہ سب بڑے لوگ خود مانتے ہیں کہ اُن کا کام کرتے وقت کوئی ماورائی قوت انکے ساتھ رہتی ہے وہ نظر نہیں آتی مگر ٹھیک ٹھیک اُس قوت کو محسوس کررہے ہوتے ہیں اور وہ اُن حالات پر بھی حیران ہوتے ہیں جو اُن کو ساز گاری مہیار کرتے ہیں۔ مثلاً سائنس دان ایڈی سن جس نے بلب اور آٹو میٹک ٹیلی گرافی مشین ایجاد کی کہتا ہے میرے ذہن میں اچانک ایک مشین بنانے کا خیال آیا جو پیغام رسانی کا کام کرے اور یہ خیال اتنا حیران کن تھا کہ میرے ذہن میں اُس مشین کا پورا نقشہ بنتا چلا گیا ایک دن وہ مشین مکمل صورت میں میرے دماغ میں جم کر بیٹھ گئی مگر مَیں تو بہت غریب تھا میرے پاس اس مشین کو ہاتھوں سے پکڑ کر اپنے دماغ سے نکالنے کے اوزار خریدنے کے پیسے تو نہیں تھے پھر حیران کن حادثہ ہوا ایک دن مَیں ایک ریلوے اسٹیشن پر ٹہل رہا تھا کہ اچانک ایک بچہ ٹرین کے سامنے آگیا مَیں نے بھاگ کر اُسے بچالیا جب مَیں اُسے گھر چھوڑنے گیا اَور اُس کے والدین کو ساری کہانی معلوم ہوئی تو وہ مجھے انعام کے طور پر کچھ رقم دینے لگے تو مَیں نے بچے کے باپ سے کہا مجھے اِ س انعام کی ضرورت نہیں مَیں ایک مشین بنانا چاہتا ہوں آپ کسی ایسے مستری کا نام بتادیں جس کے ساتھ میں مل کراپنی ایجاد پر کام کرسکوں اُس کا باپ حیرت میں کہنے لگا میں خود ہی مستری ہوں تم میرے ساتھ مل کر یہ کام کرسکتے ہو۔
 میں تمہاری ہر قسم کی مدد کروں گا پھر اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا میں حیران ہوں کسِ طاقت نے اِتفاقات کے راستے تمہیں تمہاری منزل تک پہنچادیا اُسی مستری کی چھوٹی سی دکان میں بیٹھ کر ایڈیسن نے اپنی اہم ایجاد کرلی۔ اِسی طرح نکولا ٹیسلا جس نے بجلی کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر اے سی کرنٹ کا جنریٹر ایجاد کیا اور اِس نئی ایجاد کی وجہ سے بجلی ہر جگہ آسانی سے پہنچ گئی تو اِ س کہانی کے پیچھے بھی حیران کن واقعات ہیں جس رات وہ پیدا ہوا اتنا زور دار طوفان آیا کہ اُس کا گاؤں مکمل اندھیرے میں ڈوب گیا کیونکہ ابھی زیادہ بجلی متعارف نہیں ہوئی تھی تو اُسے ڈیلور کرنے والی نرس نے تیوری چڑھا کر اُسکی ماں سے کہا یہ کیسا بچہ پیدا ہوا ہے اندھیرے اپنے ساتھ لایا ہے تو ٹیسلا کی ماں نے بے اختیار کہا کیا پتہ یہ ہمارے گاؤں میں کتنی روشنیاں لائے اور ایسا ہی ہوا کیونکہ اُس کی ایجاد کردہ اے سی کرنٹ سے بجلی کی اتنی بچت ہوجاتی تھی کہ پہے جو چند اہم شہروں میں ہوتی تھی وہ گاؤں گاؤں پہنچ گئی اِس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں۔خواب دیکھنا ایک انسانی جبلت ہے اور وہ اچھائی کے لیے دیکھے یا اپنی خود غرضانہ خواہش کے بارے میں دیکھے بہر حال وہ کسی طور پورے ہوجاتے ہیں فرعون نے خواب دیکھا تھا کہ اُسکی سلطنت چھِن گئی ہے اور وہ واقعی چھن گئی، حضرت یوسف ؑ نے خواب دیکھا کہ انہیں سلطنتِ مصر عطاہوگئی ہے تو ناممکن ترینِ حالات میں انہیں سلطنت عطاکردی گئی جسے ہمارے سارے سیاستدان کرسی اور حکومت کا خواب دیکھتے ہیں اَور وہ حاصل کرلیتے ہیں چاہے اُنکے یہ خوفناک خواب قوم کے لیے خوفناک حالات پیدا کردیتے ہوں ۔ ہماری نوجوان نسل نے تو اچھائی اور کسی اعلیٰ کارکردگی کا خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے اِس لیے ہمارے ملک میں کوئی ایسا کام نہیں ہوا جو امر ہوجائے۔

مزیدخبریں