بھارت تمام جنگیں کیونکر ہارا؟

بھارت زبانی طور پر جو مرضی آئے کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔بھارتی سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں بمعہ فوجی جنرلز کی یہ شدید خواہش ہے کہ پاکستان (مشرقی اور مغربی دونوں) انگریز دور میں بھارت کا حصہ تھے لہٰذا اِنہیں اب بھی ہر صورت میں بھارت میں ضم ہونا چاہئے۔ بھارت کو جب بھی موقعہ ملتا ہے وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے سے بازنہیں آتا۔ بھارت کو یہ بھی سخت تکلیف ہے کہ وہ پاکستان سے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ عسکری اور معاشی لحاظ سے بہت طاقتور ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ملٹری اکیڈیمی سمیت، تقریباً تمام عسکری تربیتی ادارے ، اسلحہ ساز فیکٹریاں وغیرہ سب کچھ تو بھارت کے حصے میں آیا ۔ پاکستان کو تو ان میں سے کچھ نہ ملا لیکن یہ چھوٹا سا ملک پھر بھی بھارت کے قابو میں نہیں آرہا بلکہ بھارت کو آنکھیں دکھاتا ہے اور لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ چھوٹی موٹی جھڑپوں کے علاوہ بھارت نے پاکستان سے چار جنگیں لڑیں لیکن مرضی کے مطابق کامیابی کہیں بھی حاصل نہ کر سکا۔ بھارت کے کچھ دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا لہٰذا وہ تمام جنگیں ہار گیا۔ تجزیہ کچھ اس طرح ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ’’ فتح ‘‘کا مطلب کیا ہے؟ آج میں اس سلسلے میں بھارت کے دو مشہور تجزیہ نگاروں کی رائے اپنے قارئین سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلا تجزیہ ریٹائر ڈبرگیڈئیر پراوین ساہنی کا ہے۔ اس نے پاکستان اور بھارت کی تمام جنگوں کا تجزیہ کیا ۔اُس کی رائے میں ’’فتح‘‘ وہ ہو تی ہے جب آپ دشمن ملک کی سرحدیں تبدیل کر دیںجو بھارت مغربی پاکستان/موجودہ پاکستان کیساتھ کسی بھی جنگ میں ایسا نہیں کر سکا حالانکہ پاکستان فوج ہمیشہ تعداد اور جنگی ہتھیاروں کے لحاظ سے بھارتی فوج سے کم ترتھی۔مزید حیران کن بات یہ ہے کہ کم تعداد کے با وجود بعض بھارتی علاقوں پرپاکستان نے قبضہ بھی کیا ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج ہمیشہ اپنی بقاء کی جنگ لڑی اور بھارت برتری کے زعم میں وہ کارکردگی نہ دکھا سکا۔ اس لئے پاکستانی فوج اپنے دفاع میں ہمیشہ کامیاب رہی۔
برگیڈئیر ساہنی کے علاوہ بھارت کا ایک اور نامور دفاعی تجزیہ نگار ’’روی ریکھی ‘‘ ہیں۔ اس نے اپنی کتاب "The War That Never Was"میں بھارت اور پاکستان کی تمام جنگوں کا دلچسپ تجزیہ پیش کیا ہے۔ روی ریکھی کے مطابق ’’فتح ‘‘ دو اہم مقاصد کا حصول ہے ۔ اوّل جنگ کے ذریعے اپنے اہم قومی مقاصد /اسٹریٹجک مقاصدحاصل کرنا ہے۔ دوم دشمن کو اس حد تک تباہ کرنا ہے کہ وہ آئندہ کم از کم بیس سالوں تک سر نہ اُٹھا سکے۔ بھارت اپنی چار جنگوں کے باوجود ان میں سے کوئی مقصد بھی حاصل نہیں کر سکا۔ روی ریکھی کے مطابق بھارت کی تمام جنگوں کا نتیجہ تاحال کچھ اس طرح ہے ۔ پہلی جنگ بھارت نے کشمیر میں 1947/48ء میں کشمیر میں لڑی۔ کشمیر بھارتی وزیراعظم کا وطن تھا اس لئے اُسے دل و جان سے پیارا تھا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اپنے بندے مروانے کے باوجود بھارت نے اس جنگ سے کیا حاصل کیا ؟صرف شکست! جنگ سے پہلے سارا کشمیر بھارت کا حصہ تھاجو ہر لحاظ سے بھارت کے زیرِ کنٹرول تھا ۔پھر کشمیر مہاراجہ ہری سنگھ نے سارے کشمیر کا الحاق بھارت کیساتھ کیا نہ کے کسی خاص حصے کا ۔ کشمیر بھارت کے لئے ایک بہت اہم اسٹریٹیجک ہدف تھا۔ اس وقت بھارت کے پاس دوسری جنگِ عظیم کی تجربہ کار اور مکمل طور پر ہتھیاروں سے لیس پانچ ڈویژن فوج موجود تھی جبکہ پاکستان کے پاس ایک بھی ایسا ڈویژن نہ تھا بلکہ اُس وقت پاکستان فوج منظم بھی نہ تھی تا حال ٹولیوں اور گروپس کی شکل میں جنوبی بھارت اور دوردراز علاقوں سے پاکستان ا ٓرہی تھی۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہ تھے۔اِسی طرح بھارت کے پاس دوسری جنگِ عظیم میں سینئر کمانڈ کے تجربہ کار تین برگیڈئیر موجود تھے جبکہ پاکستان کے پاس ایک بھی ایسا آفیسر نہ تھا۔ پھر بھی دسمبر 1948ء میں جب کشمیر میں جنگ بندی ہوئی تو شمالی علاقہ جات تقریباً سارے کا سارا اور دیگر کشمیری علاقے کا تیسرا حصہ پاکستان کے قبضے میں چلا گیا جسے وہ تقسیم ِ ہند سے لیکر اب تک آزاد نہیں کراسکے۔ یہ فتح نہیں شکست تھی۔
بھارت نے دوسری جنگ چین کے خلاف 1962ء میں لڑی۔ بھارتی فوج دوسری جنگِ عظیم کی تجربہ کار فوج تھی۔ ہتھیاروںکی بھی کمی نہ تھی۔ جنگ سے پہلے پریس والوں نے وزیراعظم نہرو سے جنگ کے متعلق پوچھا تو اُس نے رعونت سے جواب دیاکہ’’ میں نے فوج کو حکم دیا ہے کہ چینیوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دیں۔‘‘ لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو چینیوں نے بھارتی فوج کا بھرکس نکال دیا۔ 1200بھارتی سولجرز مارے گئے اورچار ہزار سولجرز اور آفیسرز جنگی قیدی بنا لئے گئے اور علاقے پر بھی چین کا قبضہ ہوگیا۔ بھارتی فوج اس حد تک دلبرداشتہ ہوئی کہ میدانِ جنگ سے میدانی علاقے کی طرف بھاگنا شروع ہوگئی اور یوں جنگ کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ جواہر لعل نہرو اس حد تک ڈپریس ہوا کہ یہ جنگ بالآخر اس کی موت کا سبب بن گئی۔ 
بھارت نے تیسری جنگ پاکستان کیساتھ 1965ء میں لڑی۔ اس وقت بھارت کے پاس 15ڈویژن فوج، دو آرمر ڈویژنز ، بہت بڑی ائیر فورس اور نیول فورس موجود تھی۔جب بھارت نے 6ستمبر کو بین الاقوامی سرحد عبور کی تو بھارت کا 15ڈویژن لاہور کی طرف جی ٹی روڈ پرآگے بڑھا اور چوتھا ڈویژن سیالکوٹ کی طرف ۔ بھارتی جنرل کینڈتھ کی زیرِ کمانڈ تین ڈویژن کشمیر کی طرف بڑھے۔ پاکستان ائیر فورس نے پہلے ہی دن بھارتی فوج کا بھرکس نکال دیا۔ بہت سی بھارتی گاڑیاں جی ٹی روڈ پر تباہ کر دیں۔بھارتی ڈرائیور زچلتی گاڑیاں چھوڑ کر موقعہ سے بھاگ گئے۔ بہادر بھارتی فوج کا ڈویژنل کمانڈر جنرل نرینجن پرشاد اور اس کا بریگیڈ کمانڈر ساری رات ڈر سے کماد میں چھپے رہے۔جنرل نرینجن پرشاداپنی سٹاف جیپ چھوڑ کر بھاگ گیا جو پاکستانی سولجرز پکڑ کر پاکستان لے آئے۔یہ تھی شاندار بھارتی فوج کی شاندار کارکردگی اور شاندار فتح۔ 
اگلی جنگ بھارت نے 1971ء میں لڑی اور ظاہری طور پر پاکستان توڑ دیا۔ اس سے بھارت نے کیا مقصد حاصل کیا؟ پہلی چیز تو یہ ہے کہ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ پہلے پاکستان کی توجہ مشرق اور مغرب دو جگہوں پر منقسم تھی وہ ختم ہو گئی۔ بھارت نے سات کروڑ بنگالیوں کو تو آزاد کرایا لیکن اپنی زمین اور اپنے لوگ جو چین کے قبضے میں ہیں ایک انچ زمین بھی آزاد نہیں کراسکا۔ پہلے مشرقی پاکستان کی بھارت سے کوئی خاص دشمنی نہیں تھی لیکن اب بھارت کی سات ریاستوں پر بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے۔ وہاں پہلے پاکستان کا صرف ایک ڈویژن فوج تھی اور اب بنگلہ دیش کے سات ڈویژن فوج وہاں موجود ہیں۔پہلے وہاں پاکستان کی نیوی اور ائیر فورس معمولی تعداد میں موجود تھی۔ اب دونوں مضبوط فورسز وہاں موجود ہیں۔ پہلے سات کروڑ بنگالی مغربی پاکستان کے پنجابیوں کے خلاف تھے اب سب کے سب بھارتیوں کے خلاف ہیں۔ پاکستان اب ایک مضبوط ، متحد اور ایٹمی طاقت کے طور پر بھارت کے سامنے کھڑا ہے۔ اب بھارت کی جرأت ہی نہیں کہ وہ اگلے پچاس سال پاکستان کی طرف کسی میلی آنکھ سے دیکھے۔جہاں تک کارگل جنگ کا تعلق ہے یہ 1999ء میں لڑی گئی جس میں بھارت کی بہت بڑی انٹیلیجنس بُری طریقے سے ناکام ہوئی۔ اس میں پانچ ہزار کشمیری اور ناردرن لائٹ انفنٹری کے لوگوں کو تیس ہزار بھارتی انفنٹری ، مکمل ائیر فورس اور نیوی اڑھائی ماہ کی شدید جنگ کے باوجوداپنا علاقہ آزاد نہ کراسکی۔ یہ جنگ امریکہ نے بند کروائی۔ بھارت اپنے دو  مگ طیاروں اور ایک ہیلی کاپٹر سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یہ تھیں بھارت کی کامیاب جنگیں۔

ای پیپر دی نیشن