گذشتہ سوموار کالم کا ناغہ ہوگیاتھا۔ خرابی صحت کے باعث کالم لکھا ہی نہیں جا سکا۔ گذشتہ کالم عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے نام تھا۔ ان کی نظروں سے گزرا نہیں یا شاید اب اخباری کالم پڑھنے اور ان پرنوٹس لینے کا رواج نہیں رہا۔ اب تو اخبارات کی تعداد اشاعت میں اخبارات کی موت کی خبر بھی ہوتی ہے۔ جن دنوں اخبارات زندہ تھے ان دنوں کی ایک کہانی۔
کالم نگار اپنے شہر کے ایک ریستوران میں دعوت افطار میں اذان کا منتظر بیٹھا تھا۔ ایک ویٹر اس کے پاس آکر اونچی آواز میں رونے لگا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس کی کنواری بہن تین ماہ سے گھر سے غائب ہے۔سبھی آگاہ ہیں کہ وہ کن با اثر افراد کی تحویل میں ہے۔ ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی تھی۔ کہنے لگا۔ مجھے آپ کے بارے پتہ چلا ہے کہ آپ اخبار میں لکھتے ہیں۔ مجھ دکھیا کے حال احوال اخبار میں لکھ کر ہم پررحم فرمائیں۔ان دنوں میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب تھے۔ ہر ایسی ویسی جگہ وہ جھٹ ہیلی کاپٹر پر پہنچ جایا کرتے تھے۔ سو اگلی سوموار روزنامہ نوائے وقت میں کالم نگار کے کالم کا عنوان تھا ’’میاں شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر کہاں ہے‘‘؟خیر میاں شہباز شریف کا ہیلی کا پر تو ویٹر کے محلے میں نہ اترا البتہ ویٹر کی مغویہ بہن مقامی پولیس نے چوبیس گھنٹوں میں برآمد کر کے اس کے گھر پہنچادی۔ کالم نگار کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف سے بصد شکر یہ مغویہ کی برآمدگی کی اطلاع پہنچائی گئی۔ اب میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب سے وزیر اعظم پاکستان ہو گئے ہیں۔ اب ان کا بڑے بڑے اہم قومی مسائل سے سامنا ہے۔ وہ کتنے وقار، اطمینان اور مسرت ہے پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ایک پیچ پر ہونے کی خبر سنا رہے ہیں۔ اے ایمان والو اپنے رب سے اور کیا چاہتے ہو؟
اب رہا عزت مآب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ یا پھر گوجرانوالہ کے انسپکشن حج عزت مآب جسٹس سید شہباز علی رضوی کے کالم نگار کے کالم پر کوئی نوٹس نہ لینے کامعاملہ، انہوں نے کالم سے صرف نظر کیا تو اچھا ہی کیا۔ چیمبروں کی نیلامی کا معاملہ خالصتاً مقامی بارایسوسی ایشن کا معاملہ ہے۔ بار کے اندرونی معاملات میں چیف جسٹس صاحبہ اور انسپکشن حج نے کوئی مداخلت نہ کر کے بہت اچھا کیا ہے۔ اس میں بار کی عزت اور عظمت ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے جب بھی کوئی معزز سینئر وکیل اپنے بچوں جیسے ’’بے دفتر جونیئر وکلاء ‘‘ کو دیکھتے ہیں اور چیمبروں کی ایک کروڑ سے اوپر قیمت پر غور کرتے ہیں تو ان کا دل ے بھر جاتا ہے۔ پیشہ وکالت میں نو وارد اپنی برسوں کی آمدنی سے بھی اپنے لئے دفتر خرید نے کی سکت نہیں رکھتے۔ چیمبروں کی قیمت بڑھانے میں اور عوامل کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ سید قطب شہید نے غیر منصفانہ شرح منافع کو سود کی مانند حرام قرار دیا ہے۔ ان کا یہ فتوی ہمارے کاروباری حلقوں تک شاید پہنچا ہی نہیں۔ سابق صدر بارجو میرے شہر میں چیمبروں کی نیلامی کے بانی ہیں انہوں نے کالم نگار کے کالم کاجواب دیا ہے لیکن وہ نہیں بتا سکے کہ نیلام سے حاصل شدہ رقوم بار کے کس اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی ہیں۔ پھران رقوم کے استعما ل کی منظوری کس نے دی ہے۔ انہوں نے نیلامی کا صرف ایک ہی جواز پیش کیا ہے کہ بار اکاؤنٹ میں ملازمین کی تنخوائیں ادا کرنے کیلئے کوئی رقم نہیں تھی۔ موجودہ صدر باربھی نوتعمیر شدہ چیمبروں کی نیلامی کیلئے یہی جواز پیش کر رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق پچھلے ہی ونوں وفاقی حکومت نے مقامی بار کوایک معقول گرانٹ بھجوائی ہے پھر موجودہ رجیم کا عرصہ صدارت بھی تین ماہ ے کم رہ گیا ہے۔ بار آمدنی کا حساب کتاب رکھنے کا کوئی رواج ہی نہیں رہا۔ یہ بات لطیفے کے طور پرسمجھی جانی چاہیئے کہ ہنوز گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن میں ہر سال ایک آڈیٹر کا انتخاب ہوتا ہے۔
ہر بار ایسوسی ایشن میں وکلاء کے دو طبقے ہیں۔ پہلا طبقہ ان وکلاء پر مشتمل ہے جو بار سیاست میں سرگرم رہتے ہیں۔ وہ ہاریں یا جیتیں، الیکشن ہی ان کی زندگی ہے اور زندگی کا مقصد بھی۔ یہ جائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے شروع ہو کر بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کسی نہ کسی طرح بار صدارت تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر وقفوں وقفوں کے بعد باہمی افہام و تفہیم سے صدارتی امید وار بنتے رہتے ہیں۔ یہ تمام طبقہ چیمبروں کی نیلامی کے خلاف نہیں۔ دوسرا طبقہ باقی خاموش اکثریت ہے جو چیمبروں کی نیلامی کو بس دل سے برا سمجھتے ہیں، کڑھتے ہیں اورچپ رہتے ہیں شاید وہ نہیں جانتے ان چیمبروں کی نیلامی ان کے قانونی حقوق پر ڈاکا ہے۔ سرکاری زمین پر بنائے گے یہ چیمبرز نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر حقدران کو بذریعہ قرعہ اندازی ملنا ان کا حق ہے اور اپنے حق کے لیے اٹھایا گیا ہر قدم اللہ عبادت ہو تا ہے صر ف نماز روزہ حج اللہ کی عبادت نہیں۔بارکی اس خاموش اکثریت کیلئے شاعر و ادیب شہزاد نیئر کے ایک افسانہ ’’دو ہزار بندے‘‘ سے ایک پیغام۔۔
ایک موسیقی کی محفل جمی ہوئی تھی۔ گانے والے اور سننے والے سبھی محظوظ ہو رہے تھے۔ چار سو کیف و سرور کا ایک عالم طاری تھا۔ دفعتاً ایک دینی مدرسے کے چند طالب علم اندر گھس آئے۔ انہوں نے محفل درہم برہم کر دی۔ سبھی حاضرین بھاگ نکلے۔ اب شہزاد نیئر کے لفظوں میں ’’سروں کی مالا بکھر چکی تو حملہ آور پنڈال میں گھس آئے۔ جتنی کرسیاں میزیں زمین پر پٹخ پٹخ کر توڑ سکے، تو ڑ دیں۔ گلدستوں سے کھینچ کر پھول زمین پر بکھیر دئیے۔ پھر اکٹھے ہو کر چند نعرے لگائے اوراطمینان سے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد محفل موسیقی کامنتظم تھانے میں رپٹ درج کروا رہا تھا
’’کتنے لوگوں نے حملہ کیا‘‘؟ تھانے دار نے پوچھا
’’دس پندرہ بندے ہوں گے جناب‘‘؟
’’صر ف دس پندرہ اور حاضرین کی تعداد‘‘؟
’’تقریبا دو ہزار بندے‘‘ منتظم نے مختصر جواب دیا‘‘
پس تحریر۔کالم نگار سابق صدر بار شہید اسلم جوڑا کا چیمبروں کی نیلامی کا حصہ بننے سے معذرت کو اس سلسلہ میں اٹھایا گیا پہلا راست قدم قرار دے رہا ہے۔
٭…٭…٭
وکلاء چیمبر وں کے بارے ایک اورکالم
Oct 28, 2024