آخری میچ میں انگلینڈ کو 9 وکٹوں سے شکست، پاکستان نے 19 سال بعد سیریز جیت لی
بڑے کھلاڑیوں میں بڑا پن آجائے یا آنے لگے تو پھر ان کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہی ہے۔ جب تک کھلاڑی صرف کھلاڑی رہتا ہے، جی جان سے محنت کرتا ہے، کھیلتا ہے، مگر جب وہ بڑا کھلاڑی بن جاتا ہے تو اس کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ وہ سپرسٹار کہلانے کے زعم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کھیل پر توجہ نہیں دے پاتے، نہ پہلے جیسی محنت کرتا ہے۔ ان باتوں کا اس کے کھیل پر اثر پڑتا ہے۔ یہی ہماری کرکٹ ٹیم میں بھی ہوا۔ دیکھ لیں جب ون مین شو کے برعکس عام کھلاڑیوں کو جو سپرسٹار نہیں تھے، صرف کھلاڑی تھے، نئے عزم کے ساتھ میدان میں اتارا گیا تو انھوں نے جان لڑا دی اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کا مقابلہ کرکے سیریز جیت لی۔ یوں تو میچ پوری ٹیم کی کارکردگی سے جیتے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں تاج صرف کپتان کو پہنایا جاتا ہے جس پر وہ مزید پھول جاتے ہیں اور تاحیات خود کو ہیرو اور باقی سب کو زیرو سمجھتے لگتا ہے۔ انگلینڈ کے خلاف پانچ روزہ ٹیسٹ سیریز کے آخری تیسرے میچ میں جس طرح شکست دی وہ قابل تعریف ہے، اس کامیابی کا سہرا حقیقت میں ساجد علی خان اور نعمان علی کے سر ہے جنھوں نے کہیں بھی اپنے کھیل میں کوئی کمی نہیں دکھائی۔ یہ دونوں بلاشبہ جادو گر سپنرز ہیں جن کی گھومتی گیند نے سامنے والے بلے بازوں کے دماغ گھما دیے اور وہ چکرا کر رہ گئے۔ ساجد علی خان کا وکٹ لینے کے بعد کبڈی کے سٹائل والا ران پر ہاتھ مار کر خوشی کا اظہار لاکھوں کرکٹ شائقین کو بھا گیا۔ اس ایکشن میں وہ کبڈی کے کھلاڑی نظر آتے تھے۔ پھر زخمی ہونے کے بعد بھی کھیل جاری رکھا۔ لہولہان شرٹ کے ساتھ کریز پر موجود رہ کر انھوں نے بہادر کھلاڑی ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ ان کی خون لگی شرٹ اور چہرے کے تاثرات والی تصویر تو سوشل میڈیا پر بار بار دیکھی جا رہی ہے۔ انھوں نے اس آخری میچ میں گیارہ وکٹیں لیں۔ اس طرح مین آف دی سیریز قرار پائے۔ اسی طرح نعمان علی نے 9 وکٹیں حاصل کیں۔یہ میچ 9 وکٹوں سے جیت میں ان دونوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے بطور بلے باز بھی عمدہ کارکردگی دکھائی اور اچھے رنز بنائے۔
٭... ٭…٭
کراچی کلفٹن میں مرغیاں پالنے پر ہمسائے کے خلاف مقدمہ
مرغی پالنے پر آج تک کبھی کوئی مقدمہ سامنے نہیں آیا، ہاں ان کی پھیلائی گندگی صاف کرنے پر یا مرغی چوری پرجھگڑا ضرور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بے چاری مرغی صرف انڈہ دیتے وقت کڑکڑ کرتی ہے یا پھر جب کڑک ہو تو شور کرتی ہے۔ اس کی نسبت مرغ بے چارہ تو سوائے صبح سویرے غافلوں کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے بانگ دیتا ہے۔ وہ کئی لوگوں کو ناگوار گزرتی ہو تو الگ بات ہے کیونکہ ان نیند کے ماتوں کے آرام میں خلل پڑتا ہے اور یہ بانگ ان کے کانوں میں صور اسرافیل کی طرح لگتی ہے۔ باقی سارا دن مرغ بے چارہ چپ رہتا ہے کیونکہ جانتا ہے کہ بے وقت بانگ دینا اچھا نہیں سمجھا جاتا اور ایسے مرغ کو جلد ہی ذبح کرکے ہانڈی میں پہنچا دیا جاتا ہے جو بے وقت بانگ دے۔ اس لیے وہ سارا دن بس مرغیوں کو بلانے کے لیے کٹ کٹ کرتا رہتا ہے۔ کلفٹن کراچی کے پوش علاقوں میں سب سے پہلا نمبر رکھتا ہے۔ وہاں رہنے والے دولتمند نازک مزاج ہوتے ہیں، جبھی تو وہاں کے ایک شہری نے اپنے ہمسائے کے خلاف درخواست دی ہے کہ اس نے مرغیاں پالی ہیں، جن کی وجہ سے وہ بے آرام ہوتے ہیں۔ اس لیے انھیں منع کیا جائے کہ وہ مرغیاں گھر میں نہ پالیں۔ اب عدالت حیران ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ کسی کو مرغی پالنے سے روکا جائے۔ اس سلسلہ میں عدالت نے وکلاء سے قانونی مشورہ طلب کیا ہے۔ اب کیا کہتے ہیں تحریک انصاف والے اس سلسلہ میں جنھوں نے ایک مرغ اور چار مرغیاں کو پالنے کے لیے دے کر غربت مکاؤ مہم چلائی تھی تاکہ لوگ اس سے روزگار کمائیں۔ اب اگر عدالت سخت فیصلہ دیتی ہے تو مرغیاں پال سکیم پر برا اثر پڑے گا۔ ویسے شہروں اور دیہات میں صدیوں سے مرغیاں پالی جاتی ہیں تاکہ دیسی انڈے اور دیسی مرغ کا گوشت کھانے کو میسر ہو اور انھیں فروخت کرکے کچھ کمایا بھی جا سکے۔ اب درخواست دینے والوں نے نجانے کیوں یہ کام کیا ہے ورنہ آج تک تو مرغ یا مرغی چوری کے واقعات پر شور اٹھتا تھا مگر پالنے کے خلاف کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ حیرت ہے ان بڑے گھروں میں کتے بھی شوق سے پالے جاتے ہیں جو اکثر و بیشتر بھونکتے رہتے ہیں۔ جب جی چاہتا ہے بھونکتے ہیں۔ ان کے شور کے خلاف کیوں درخواست نہیں دی جاتی۔ شاید مرغیوں کی کٹ کٹ دیسی شور ہے اور کتے کی آواز ماڈرن دور کی علامت ہے۔ مرغی جو زیادہ تر امیر کھاتے ہیں، کو پالنا غریبوں کے لیے اور کتے جن کا گوشت تو کوئی نہیں کھاتا، الٹا انھیں شوق سے نہلایا جاتا ہے کیونکہ یہ امرا کا شوق قرار دیا جاتا ہے۔
٭…٭…٭
سردی کے آتے ہی گیس کی غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ میں اضافہ
یہ تو اب ہماری روٹین میں شامل ہے کہ گرمی آتے ہی ہمیں بجلی کے بلوں میں اضافہ کی وجہ سے کرنٹ لگنا شروع ہو جاتے ہیں، اسی طرح سردی آتے ہی گیس کے بلوں میں اضافہ ہمارے گھر کو جلانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ سو دیکھ لیں ابھی سردیوں نے ہمارے دروازے پر دستک ہی دی تھی کہ سوئی گیس والوں کی آنکھ کھل گئیں اور انھوں نے تین ماہ کی گہری نیند سے بیدار ہو کر پہلا کام جو کیا وہ یہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ، وہ بھی غیرعلانیہ شروع کر دی ہے۔ اس بار تو گرمیوں میں بھی گیس کی کمی اور غائب رہنے کی شکایات عام تھیں۔ اب سردی آتے ہی وقفے وقفے سے گیس غائب ہونے لگی ہے۔ گھریلو خواتین کھانا پکانے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، اس کے ساتھ ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایل پی جی کی قیمت بھی آسمان کو چھو رہی ہے۔ بے تحاشا اضافے کی وجہ سے اب ایل پی جی کا سلنڈر خرید کر کام چلانے والے بھی حیران ہیں کہ اب کیا کریں گے۔ سوئی گیس کا محکمہ گیس کی قیمت میں اضافہ کرتے ہوئے تو ذرا بھی نہیں شرماتا۔ اسے بھلا گیس کی لوڈشیڈنگ سے کون سی شرم آئے گی۔ یہ لوگ تو بس قیمت میں اضافہ پر توجہ دیتے ہیں اور صارف کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں جو گیس کی قیمت میں اضافہ بھی برداشت کرتے ہیں اور گیس کی لوڈشیڈنگ بھی۔ لوگ ان چیزوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ تو سو پیاز اور سو جوتے والی کہاوت کو درست ثابت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہ کریں تو اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ بس خاموشی سے بھاری بل جمع کراتے ہیں کیونکہ ایسا نہ کریں تو کنکشن کٹنے کا ڈر الگ ستاتا ہے جسے دوبارہ لگانا ایک الگ درد سر اور خرچہ ثابت ہوتا ہے اس لیے چپ چاپ لٹتے ہیں۔ اب تین چار ماہ گیس کی آنکھ مچولی جاری رہے گی‘ قوم کو گیس میسر نہیں ہوگی اور بھاری بل باقاعدگی سے موصول ہوتے رہیں گے۔ یوں گھروں میں ایک نئی تلخی جنم لے گی۔ صبح کا ناشتہ کیے بغیر بچے سکول کالج اور میاں دفتر یا دکان پر جائیں گے اور خاتون خانہ سوئی گیس والوں کی خانہ خرابی کی بددعائیں دیتی نظر آئیں گی۔ یہ آہ و زاری اور بددعاؤں کا سیزن اپریل تک جاری رہے گا۔ ہمیشہ کی طرح نہ سوئی گیس والے لوڈشیڈنگ ختم کریں گے نہ ہی لوگوں کی بددعائیں رنگ لائیں گی۔