دہشت گرد اسرائیل کے ایران پر فضائی حملے

Oct 28, 2024

اداریہ

دہشت گرد صہیونی ریاست اسرائیل نے ایران کے دارالحکومت تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سمیت شیراز اور کرج شہر میں20 فضائی حملے کیے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ میزائل سازی کی تنصیبات، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ایرانی حملوں کے جواب میں کارروائی مکمل کر لی ہے۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ایران میں طے شدہ فوجی اہداف کو نشانہ بنایا اور اسرائیل کو درپیش فوری خطرات کو دور کر دیا گیا۔ تہران نے حملے ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دفاعی نظام نے میزائل اور ڈرونز ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی مار گرائے۔حملوں میں ایران کے 4 فوجی شہید ہوئے۔ امریکا نے حسبِ توقع ایران پر حملے کو تل ابیب کی اپنے دفاع کی مشق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان حملوں میں ملوث نہیں لیکن اسرائیل کی سلامتی کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسرائیلی حملوں پر ایرانی ائیر ڈیفنس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر تین حملے کیے گئے۔ اسرائیل نے تہران، خوزستان اور ایلام میں کئی فوجی مقامات پر حملے کیے۔ اسرائیل کے حملے فضائی دفاعی نظام کے ذریعے کامیابی سے ناکام بنائے گئے، صیہونی جارحیت کے نتیجے میں کئی مقامات پر محدود پیمانے پر نقصان ہوا۔ مہر آباد اور امام خمینی ہوائی اڈوں پر صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ زور دار دھماکوں کی آوازیں مقامی وقت کے مطابق رات2  بجے سنی گئیں لیکن ابتدائی رپورٹس کے مطابق کوئی نقصان نہیں ہوا، زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔ ادھر، شامی میڈیا کا کہنا ہے کہ دمشق اور ہومز میں بھی کئی دھماکے سنے گئے جبکہ شامی فضائیہ میزائلوں کو ناکام بنانے میں مصروف عمل ہے۔ اس کے علاوہ عراقی شہروں دیالہ اور صلاح الدین میں بھی دھماکوں کی آواز سنی گئی۔ 
دریں اثناء ایران پر حملوں کے بعد امریکی وزیر دفاع نے اسرائیلی ہم منصب سے رابطہ کیا اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کیا۔ گفتگو کے دوران امریکی اور اسرائیلی وزیر دفاع کی ایران پر حملے سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وائٹ ہائوس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان سیوٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اپنے دفاع میں یکم اکتوبر کو ایران کی جانب سے کیے گئے حملوں کا جواب دیتے ہوئے ایرانی فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کے ایران پر حملوں میں امریکا کا کوئی کردار نہیں لیکن ایران پر اسرائیلی حملوں سے آگاہ ہیں اور صورتحال پر گہری نظر ہے۔ ترجمان شان سیوٹ نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاعی مشق کے طور پر اور یکم اکتوبر کو ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کے جواب میں ایرانی فوجی تنصیبات کے خلاف ٹارگٹڈ حملے کر رہا ہے۔ ایران پر حملوں سے پہلے امریکی صدرجو بائیڈن کو ممکنہ کارروائی سے آگاہ کر دیاگیا تھا۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ہم ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت سے علاقائی امن کو خطرہ لاحق ہے۔ سماجی رابطے کے پلیٹ فارم پر جاری اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت قابل تشویش ہے۔ اسرائیل کے اس طرح کے اقدامات سے علاقائی امن اور استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔ ایسی کارروائیاں عالمی قوانین اور خود مختاری کی صریح خلاف ورزیاں ہیں۔ پاکستان خطے میں قیام امن کے لیے ایران سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا اور عمان سمیت متعدد ممالک نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔
ادھر، غزہ میں جاری صہیونی ریاست کی دہشت گردی کے باعث فلسطینی بچے ادویہ کے بغیر تڑپ تڑپ کر مرنے لگے۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ادویہ کی فراہمی روک رکھی ہے اور ہسپتالوں کو اسرائیلی فوج کی طرف سے علاج کے لیے ناکارہ بنادیا گیا ہے۔ جیالیہ کیمپ میں آپریشن کر کے اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی گرفتار کر لیے۔41 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو کیمپ سے بے دخل کر دیا گیا جبکہ متاثرہ فلسطینیوں نے انکشاف کیا ہے کہ تفتیش کے نام پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ مردوں کو سرد موسم میں گھنٹوں نیم برہنہ حالت میں میدان میں کھڑا رکھا جاتا ہے۔ کمال عدوان ہسپتال اور ملحقہ علاقوں پر حملے جاری ہیں۔ ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ کا 8 سالہ بیٹا ابراہیم شہید ہوگیا جس کی میت اور جنازے کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔
دہشت گرد صہیونی ریاست ایک سال سے زائد عرصے سے غزہ میں جو ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے اس کے دوران شہید ہونے والی کی تعداد ان اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے جو بار بار ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کیے جارہے ہیں۔ آسٹریلیا کے ایک اخبار کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک غزہ میں دو لاکھ شہادتیں ہوچکی ہیں۔ اس صورتحال کے لیے امریکا اور برطانیہ سمیت وہ تمام مغربی ممالک پوری طرح ذمہ دار ہیں جو ناجائز صہیونی ریاست کو ہر قسم کی امداد مہیا کررہے ہیں۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے بھی صرف کھوکھلے مذمتی بیانات ہی جاری ہورہے ہیں۔ دہشت گرد اسرائیل جس طرح جنگ کا دائرہ بڑھا رہا ہے اس سے پورے خطے کا مستقبل داؤ پر لگتا نظر آرہا ہے۔ اگر عالمی برادری خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے غزہ میں فوری طور پر غیر مشروط جنگ بندی کرانی چاہیے اور لبنان میں بھی اسرائیلی جارحیت کا خاتمہ ممکن بنایا جانا چاہیے۔ ان اقدامات کے بغیر خطے میں امن کے قیام کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

مزیدخبریں