نئی دہلی (این این آئی ) مودی کے تیسری دفعہ اقتدار سنبھالتے ہی بھارت میں اقلییتوں بالخصوص مسلمانوں پر قیامت صغری ٹوٹ پڑی ہے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارت میں کشمیر سے لیکر کرناٹکا تک اقلیتیں اپنے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے برسرِپیکار ہیں۔ بھارتی مسلمان آئے دن انتہاپسند ہندوئوں کے نظریات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ ہندوتوا کے پیروکاروں کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ مذہبی اور سیاسی جلوسوں کو جان بوجھ مسلم اکثریتی علاقوں سے گزارا جاتا ہے اور نفرت انگیز نعرہ بازی کی جاتی ہے۔ ہندو انتہا پسند بی جے پی کے ہرکاروں کی سرپرستی میں مسلم گلی، محلوں اور گھروں کی چھتوں پر زعفرانی پرچم لگانے پر بھی اصرار کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے مہاراج گنج میں مشتعل ہندو انتہا پسند ہجوم نے مسلمانوں کے گھروں، عبادت گاہوں اور دکانوں پر دھاوا بول دیا۔ بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہجوم نے مسلم گھروں پر پٹرول بم پھینکے، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی اور پیسے چوری کیے، لوگوں نے کھیتوں میں چھپ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی مگر شدت پسندوں نے کھیتوں میں بھی عورتوں اور بچوں کا پیچھا کیا۔ ہندو شدت پسندوں نے درجنوں گھروں کو جلا کر مکمل طور پر خاکستر کر دیا اور اب مسلم رہائشیوں کے پاس صرف وہی کپڑے بچے ہیں جو انہوں نے پہنے ہوئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے پولیس نے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں اور ان کی پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں۔ پولیس مشتعل ہجوم کے ساتھ مل کر تشدد کر رہی تھی اور مسلمانوں کو ہائے رام کہنے پر مجبور کرتی رہی۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے کچھ مسلمانوں کو بغیر کسی وجہ سے جھوٹے انکاؤنٹر میں مار دیا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ بی جے پی ریاستی مشینری کا استعمال کر کے بھارت سے مسلمانوں اوردوسری اقلیتوں کا صفایا کر رہی ہے۔ بین الاقوامی مبصرین نے بہرائچ سانحے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں ہونے والے ظلم و ستم کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں کی معنی خیز خاموشی نے بہت سے نئے سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔