اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن ہونا ضروری قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن کے نوٹس تک کچھ نہیں کر سکتے۔ کئی ارکان سنی اتحاد کونسل میں جا چکے ہیں۔ وہ پچھلی تاریخوں میں دیگر پارٹی میں کیسے جاسکتے ہیں۔ اس ترمیم کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ میرا نہیں خیال 27 ویں آئینی ترمیم آرہی ہے۔ ہر جماعت کا اپنا سٹینڈ ہوتا ہے۔ فخر ہے مجھے یہ حوالداری منظور ہے۔ الزام ہے کہ اسمبلی میں ایجنسیز کے لوگ گھوم رہے ہیں۔ خفیہ طریقے سے ترمیم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر طرف سے کوشش ہو رہی تھی کہ ساری جماعتیں اتفاق رائے کریں لیکن نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم والے بے چارے نہیں اچھے پارلیمینٹرینز ہیں۔ ایم کیو ایم نے دیکھا کہ ترمیم میں سب کا فائدہ ہے۔ ایم کیو ایم والے لیس ڈیمانڈنگ ہیں۔ قانون سازی میں ایم کیو ایم والے کافی اچھا کام اور محنت کرتے ہیں۔ مزید ترامیم کے بارے میں مجھے نہیں معلوم۔ چار ارکان نے جب ووٹ کیا تو پی ٹی آئی والوں نے نشاندہی کی۔ چار ارکان ای سی کے مطابق آزاد امیدوار ہیں۔ کسی بھی پارٹی کو ترمیم کے حق میں ووٹ کرنے والوں پر اعتراض ہوگا تو ریفرنس دائر کر سکتے ہیں۔ ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ امریکہ میں ججز کی تعیناتی کیلئے باقاعدہ سماعتیں ہوتی ہیں۔ اگر پارلیمنٹ آئین بنا سکتی ہے تو جن کو آئین کی تشریح کرنی ہے ان کی تعیناتی نہیں کر سکتی؟۔ کیا سپریم کورٹ کو اجازت ہے کہ آئین کو ری رائٹ کر لے۔ پارلیمنٹ کو ججز کی تعیناتی کا اختیار کیوں نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ایک ڈبیٹ ہے جو چلتی رہے گی۔ حاجی امتیاز اینٹی کرپشن کی تحویل میں تھے کسی کے کہے بغیر پروڈکشن آرڈر جاری کیے، میں نے حاجی امتیاز کو پارلیمنٹ لاجز میں رکھوایا اور پارلیمنٹ لاجز کو سب جیل قرار دیا۔ آئین میں موجود ہے آئین میں ترمیم کسی کورٹ میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔ میرا نہیں خیال یہ چیزیں کورٹ سے ان ڈو ہو سکتی ہیں۔ فرض کر لیں کہ پی ٹی آئی سب کچھ ٹیک اوور کر لیتے ہیں کیا اس طرح حکومت تبدیل ہو جائے گی۔ ہم 2018 پارلیمنٹ کا حصہ اس لئے بنے کہ ایوان کو خالی نہ چھوڑ دیں۔ ہم اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی لڑے۔ پارلیمنٹ کو چھوڑا نہیں۔ جب 2013 ء میں سپیکر بنا تو کہا گیا جعلی پارلیمنٹ ہے۔