جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا 

جب وقت کی نبض بہت تیز چل رہی ہو ، ایک ایک سیکنڈ زندگی کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہو ، گھڑی کی دھڑکنیں کانوں پر کوڑے برسا رہی ہوں ، زندگی مٹھی سے ریت کی طرح سرک رہی ہو ، جیل ڈاکٹر نے پھانسی کے پھندے کی تیاری کے لیے گلے اور قد کا ماپ لے لیا ہو ، موت کا نقارہ بج چکا ہو - 18 سال کی سزا کاٹنے کے بعد قتل کے جرم میں سزائے موت سنا کر ، مجرم کو تحت دار پر لا کر گلے میں رسے کا پھندہ ڈال دیا جائے ، جونہی جلاد پیروں کے نیچے سے تحتہ کھینچنے لگے پھندے کا رسہ ٹوٹ جائے - دوبارہ رسہ ڈالا جائے اور جلاد کھینچنے کے لیے تیار ہی ہو کہ اچانک اسے ہارٹ اٹیک ہو جائے - سب لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ہوتا دیکھ رہے ہوں - پھر اس واقعے کو قدرت کا کوئی پیغام سمجھ کر  دو گھنٹے کے لیے پھانسی کے حکم کو مؤخر کر دیا جائے - سب کی جان مٹھی میں ہو اور اسے قدرت کا کوئی فیصلہ سمجھ کر بیقراری سے انتظار کرنے لگیں کہ ان دو گھنٹوں میں ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے - اور پھر ایسا ہی ہو قتل کا اصل مجرم آئے اعتراف جرم کر کے گرفتاری دے دے اور قدرت کسی بے گناہ کو تحت دار سے بچا لے - اب پڑھنے یا سننے میں یہ ایک کہانی لگے گی ، یا ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ایسا فلموں اور ڈراموں میں ہوتا دیکھتے رہتے ہیں ، حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے - مگر یہ کوئی کہانی یا کسی فلم کا سین نہیں بلکہ حقیقت ہے اور یہ واقعہ انڈونیشیا کی ایک جیل میں سزائے موت کے قیدی کے ساتھ پیش آیا تھا - کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو نا قابلِ یقین ہوتے ہیں - جن کے ساتھ پیش آتے ہیں انہیں نا صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی یقین دلانا پڑتا ہے کہ ایسا ہو چکا ہے اور اگر یقین دلانے کے لیے انسان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل یا الفاظ نہ ہوں تو بات کا مفہوم ادھورا رہ جاتا ہے ، اور پھر صداقتیں بھی مشکوک ہو جاتی ہیں - جب پھانسی سے بچ جانے والے سے پوچھا گیا کہ اس کا کونسا ایسا عمل تھا جس نے اسے دوبارہ زندگی بحش دی ، تو اس کا کہنا تھا کہ وہ بے گناہ تھا - لوگوں کو اس نا قابلِ یقین منظر کو دیکھ کر بے یقینی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے صرف یہ الفاظ کافی نہیں تھے - ان کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی کہانی ہو گی ، ایک دو منٹ کے فاصلے پر کھڑی موت کا زندگی سے ہار جانا ایک بہت بڑا معجزہ تھا - بچ جانے کے لیے اگر بے گناہ ہونا ہی کافی ہوتا تو دنیا میں کوئی بے گناہ سولی پر نہ چڑھایا جاتا - ہزاروں بے گناہ جیلوں میں قید نہ کاٹ رہے ہوتے - پاکستان میں ایسی بہت سی مثالیں ہوں گی - ناجانے کتنے بے گناہ یہاں بھی سولی چڑھا دیے گے ہوں گے جنہیں ہم جانتے بھی نہیں - سیاستدانوں کو تو ہم جانتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کو جس جرم کی پاداش میں پھانسی دی گئی تھی اسے عدالتی قتل کہا جاتا ہے ، اس لحاظ سے تو وہ بھی بے گناہ تھے - عدالتیں اگر انصاف پر مبنی فیصلے نہ کر رہی ہوں تو ان کے فیصلے بھی کسی کو پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیتے ہیں - پاکستان میں ابھی چھبیسویں آئینی ترمیم کی گئی ہے اور بہت غلط طریقے سے کی گئی ہے اس کے تحت عدلیہ خاص کر سپریم کورٹ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے - سپریم کورٹ سے بہت سے اختیارات چھین لیے گئے ہیں - عام عوام کی سمجھ سے باہر ہے کہ یہ ترمیم اتنی ضروری کیوں ہو گئی تھی جس کے لیے ہر ناجائز طریقہ اختیار کیا گیا ،  جو یہ بات کی جا رہی تھی کہ اس ترمیم سے جہاں اور بہت سے مقاصد پورے کیے جائیں گے وہاں جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس آف پاکستان بننے کا راستہ روکنا ہے، کیا یہ بات سچ تھی ؟ کیونکہ اب نئی آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کے انتحاب کا اختیار حکومت کے پاس چلا گیا ہے حکومت سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ ججز میں سے کسی کو بھی چیف جسٹس آف پاکستان بنا سکتی ہے - چنانچہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان بنا دیا گیا ہے - اس ترمیم میں ملٹری کورٹس بنانے اور ان میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کی شق بھی شامل تھی جو مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ میں نے یہ شق ترمیم میں سے نکلوا کر کالے ناگ کے دانت توڑ دیے ہیں مگر اب محتلف ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ بہت جلد ستائیسویں ترمیم بھی آنے والی ہے جن میں ملٹری کورٹس بنانے کی خواہش بھی پوری کر لی جائے گی کیونکہ اب تو ترمیم کے لیے نمبرز پورے کرنے کا مسئلہ بھی نہیں رہا ، کافی لوٹے بنا لیے گئے ہیں - اگر ملٹری کورٹس بنا لیے جاتے ہیں ، تو پھر ان کورٹس کو سویلین کے ٹرائل کا اختیار حاصل ہو جائے گا - جسے چاہیں عمر قید یا سزائے موت دے سکتے ہیں ، پھر کسے خبر سویلین میں سے کون بے گناہ تحت دار تک پہنچتا ہے- 

  خیر ، بات کسی اور طرف چلی گئی ہے - یہ سب میرے قلم کی کارستانیاں ہیں جو بات سے بات نکال کر بات کو گھوما پھیرا کر اصل مدعے سے ہٹا دیتا ہے اور پھر موضوع میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے - مجھے کچھ خیرخواہ کہتے ہیں کہ میں کرنٹ افیئرز پر لکھا کروں ، میرا ان سے کہنا ہے کہ پاکستان میں لمحہ بہ لمحہ ایسی ایسی developments ہو رہی ہیں جن پر طبع آزمائی ناجانے کتنے لوگوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہو ، کرنٹ افیئرز پر سینکڑوں لوگ لکھ رہے ہیں آپ ان کی خدمات حاصل کر لیا کریں - مگر اس سوچ سے قطع نظر کہ اگر قلم پھسل جاتا ہے اور تحریر میں تھوڑا بہت کرنٹ افیئرز کا تڑکا بھی لگا دیتا ہے تو پھر قلم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کب پوری ہانڈی پکانے پر مجبور کر دے - اگر ایسا ہو گیا تو سمجھ لیجیے گا کہ یہ وطن یا مٹی کی محبت کی پکار ہے ، جو کسی طرح کی بھی جب ناانصافی دیکھتی ہے تو پھر آواز اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے - خواہ وہ آواز قلم کے ذریعے ہی اٹھائی جائے - مٹی کی محبت بھی عجیب ہے ہر وقت مٹھی میں جان رہتی ہے کیونکہ ایک ایسی غیر یقینی صورتحال سے یہ مٹی گزر رہی ہے کہ اگلے لمحے کی کچھ خبر نہیں ہوتی کیا ہو جائے ، دوسری طرف کبھی کبھی یہ محبت ڈرا بھی دیتی ہے کہ کہیں اس محبت کو غداری کا نام نہ دے دیا جائے ، دہشتگرد نہ ڈکلیئر کر دیا جائے ، کیونکہ اس ملک میں کچھ قوتیں صرف خود کو ہی محب وطن سمجھتی ہیں باقی ہم عوام اگر ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں تو غدار اور دہشت گرد ہیں  - میرے ایک جاننے والے نام نہاد دانشور ہیں ان سے مٹی کی محبت پر بات ہو رہی تھی تو ان کی ایک بات نے ان کے دانشوری کے دعوے کو کافی تقویت بخشی ہے - ان کا کہنا تھا کہ مٹی سے محبت کا اصل ثبوت کرکٹ میچ میں دیکھا جا سکتا ہے ، خاص کر اگر پاکستان کا میچ حریف ٹیم بھارت کے ساتھ ہو رہا ہو تو مٹی کی محبت دیدنی ہوتی ہے - لوگوں کو ہارٹ اٹیک تک ہو جاتا ہے ، ہارنے کی صورت میں ٹی وی توڑ دیتے ہیں - ایک سوگ کا سماں ہوتا ہے - میرے سکول کے زمانہ کی ایک کلاس فیلو اپنے ماموں کے بارے میں بتایا کرتی تھی کہ وہ 30 سال سے امریکہ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہیں پاکستان بھی آتے رہتے ہیں جب بھی واپس امریکہ جاتے ہیں تو اپنے ساتھ ایک برتن میں تھوڑی سی مٹی ضرور لے جاتے ہیں ، اور بتاتے ہیں کہ مجھے اپنی مٹی سے اتنی محبت ہے کہ میں یہ مٹی سونگھتا رہتا ہوں اور اس میں ایسی کشش ہے کہ یہ مجھے واپسی کا راستہ نہیں بھولنے دیتی وہ ہر سال پاکستان آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں مٹی کی کشش کھینچ لاتی ہے - وہ مٹی کی خوشبو سے اتنے واقف تھے کہ اگر امریکہ میں کسی پاکستانی سے ملتے تو اس کے جسم کی خوشبو سے ہی پہچان لیتے تھے کہ یہ پاکستانی ہے - جس طرح اللّہ تعالیٰ کو ہماری عبادات ، ہماری نماز روزوں کی ضرورت نہیں ہوتی ، ہم جو بھی نیکی کر رہے ہوتے ہیں اپنے لیے کرتے ہیں ، اس سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں - ہمارے منہ سے اپنی تعریف سننا اسے اچھا لگتا ہے،  جب ہم اسے اپنی مدد کے لیے پکارتے ہیں ، اپنی ہر کامیابی وناکامی کو اس کی رضا سے منسوب کرتے ہیں تو اسے اچھا لگتا ہے - پھانسی کے پھندے سے بچ جانا بھی اس کی وسیع رحمت کا نتیجہ تھا وہ ایسے معجزات دکھا کر ہم انسانوں کو اپنے ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے اور بتاتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہونا - میں حضرت ابرہیم علیہ السّلام کے لیے اگر دہکتی آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہوں ، حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکال سکتا ہوں ، حضرت موسٰی علیہ السّلام کے لئے دریا کے پانی میں سے راستہ بنا سکتا ہوں تو تحت دار سے کسی کو بچا لینا میرے لیے کیسے مشکل ہو سکتا ہے - یہی بات مقتل سے زندہ لوٹ آنے والے کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ تو سب اس کی رحمت کا نتیجہ تھا-  اگر اسے سمجھ آ جاتی تو مجھے بھی اتنا لمبا تبصرہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی !!

ای پیپر دی نیشن