’’بلوچستان میں بے بنیاد احتجاج!عوام کے لیے مشکلات کا باعث‘‘                

بلوچستان میں ملک دشمن عناصرکی جانب سے آئے روز چھوٹی چھوٹی باتوں کو مسئلہ بناکر احتجاج کے نام پرشاہرات کو بند کردینا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔پرامن احتجاج ہر انسان کا آئینی اور شرعی حق ہے،مگر احتجاج کے نام پر فساد پھیلانا کھلی دہشت گردی ہے جوکہ قانوناً اور شرعاً حرام ہے۔ احتجاج کا عام الفاظ میں معنی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔مگر بلوچستان میں ہونے والے احتجاج اور دھرنے بدامنی کے فروغ کے سوا ء کچھ نہ ہیں۔کیا ایک مجرم،قاتل ایک دہشت گرد کی حمایت کرنا،اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لیے ریاست کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنا،ملکی املاک اور ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچانا،راستے بند کر کے لوگوں کے لیے مشکلات پیداکرنا اور نہتے لوگوں کو قومیت اور لسانیت کے نام پر قتل کرنا اپنے حقوق کی لڑائی ہے؟۔ہر گز نہیں یہ مٹھی بھر ملک دشمنوں کے ذاتی مفادات کی لڑائی ہے۔دین اسلام میں باقاعدہ احتجاج کرنے کا طریقہ پیش کیا گیا ہے۔جس طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺکے پاس آیا اور اپنے پڑوسی کے نامناسب رویے کی شکایت کی۔آپ  نے فرمایا کہ جاؤ صبر سے کام لو۔وہ شخص چلاگیا پھر اس کے بعد دوسری یا تیسری مرتبہ حاضر ہوااور وہی شکایت کی تو آپ نے مہذب اور پرامن احتجاج کرنے کاطریقہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اپنے گھر کا سامان نکال کر راستے میں ایک طرف رکھ دو۔چنانچہ اس شخص نے ایسا ہی کیا اپنے گھر کا سامان نکال کر راستے کے ایک طرف رکھ دیا۔لوگوں نے جب اس شخص سے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنے پڑوسی کے رویہ کے متعلق بتایا۔لوگوں نے اس کے پڑوسی کے بارے میں سخت الفاط ادا کیے،یہ تھاپرامن احتجاج کاطریقہ۔کیچ کے رہائشی ایک دوکاندارنے بتایا کہ چند لوگوں نے اسے زبردستی احتجاج میں شامل ہونے کا کہا،انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ اس کی دوکان کے سامان کو اس کے سامنے نذر آتش کردیا گیا۔احتجاج کے نام پر شاہرات کو بند کر نے والوں کے متعلق نبی کی سخت وعید: حضرت معاذ بن انس جھنیؓ سے روایت ہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کی قیادت میں ایک غزوہ میں شرکت کی۔لشکر والوں نے جب پڑاؤ ڈالا تو عام لوگوں کے گزرنے والے راستوں کو تنگ کردیا۔آپ  نے فرمایا ’’جس نے عام لوگوں کی گزر گاہوں (راستوں) کو تنگ کردیا یا راستے بالکل ہی بند کردئیے تو اس کا صحیح معنوں میں جہاد نہیں ہوا۔‘‘بلوچستان میں آئے روز ملک دشمن عناصر احتجاج کے نام پر سٹرکیں بند کردیتے ہیں جن کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں،روڈ بند ہونے کی وجہ سے طلباء وطالبات کالجز اور یونیوسٹیوں میں نہیں پہنچ پاتے۔مریض بروقت ہسپتالوں نہ پہنچنے کی وجہ سے ایمبولینسز میں جان دے دیتے ہیں،مارکیٹس بند ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو بھوک برداشت کرنا پرتی ہے،روڈ بند ہونے کی وجہ سے تاجروں کے فروٹ اور سبزیاں ٹرکوں میں گلنے سڑنے لگتی ہیں،جوکہ ان کا معاشی قتل اور مہنگائی کا سبب ہے۔اورماڑہ کی رہائشی ایک میڈیکل کی طالبہ نے روتے ہوئے یہ بتایا کہ ان کے کوئٹہ میڈیکل کالج میں انٹری ٹیسٹ تھے جس میں پورے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء وطالبات کی شرکت لازم تھی مگر روڈ بند ہونے کی وجہ سے گوادر،پسنی،پیشکان،جیونی،اورماڑہ اور پنجگور کی بہت سی طالبات کوئٹہ نہیں پہنچ پائیں،جبکہ اس ٹیسٹ کے لیے انہوں نے دوسال مسلسل دن رات تیاری کی تھی۔تربت بالگتر کے ایک رہائشی نے بتایا کہ سی پیک شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئیں تھیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے،ویرانے میں پینے کا پانی بھی میسر نہ تھا یوں لگتا تھا کہ جیسے ہم کربلا میں ہیں۔بچے بھوک سے نڈھال ہوچکے تھے۔اسی طرح قلات کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ہم دیہاڑی دار مزدور لوگ ہیں،روڈ بند ہونے کی وجہ سے کئی دنوں سے میرے گھر میں فاقہ کشی چل رہی ہے،ہمارے سامنے ایک مریض جس کی ایمبولینس کو راستہ نہیں دیا اور وہ تڑپ ٹرپ کر ایمبولینس میں وفات پاگیا۔بزرگ کاکا سلیمان نامی شخص نے ویڈیو پیغام میں بتایا کہ اس کا کم عمر نواسہ جو کہ سول اسپتال گوادر میں زیر علاج تھا مگر اس کی طبیعت بگڑنے کی وجہ سے ہم اسے کراچی لے کر جارہے تھے،مگر نیلنٹ پہنچنے تک اس کی طبیعت مزید بگڑ گئی ہم نے بچے کو تربت ہسپتال لیجانے کا فیصلہ کیا۔مگر جب ہم تربت ڈی بلوچ پہنچے تو ملک دشمن، دہشت گردوں،قاتلوں اور مجرموں کے لیے سراپا احتجاج تھے،میں نے ان کو بتایا کہ میرا نواسہ سریس حالت میں ہے جسے آکسیجن لگی ہوئی ہے،ہمیں راستے دو تاکہ ہم اسے ہسپتال لے جائیں،مگر ہمیں راستہ نہیں دیا گیا۔مجبور ہوکر ہم نے دوسری جانب کھڑی بولان گاڑی کرائے پرلی اور آکسیجن کے بغیربچے کو پی آئی اے ہسپتال تربت لے گئے،مگر آکسیجن نہ ملنے کی وجہ معصوم بچہ زندگی کی بازی ہار گیا۔کاکاسلیمان کے نواسے کا قاتل کون؟ان طالبات کے روشن مستقبل کاقاتل کون؟،تاجروں کا معاشی قاتل کون؟بلوچستان کی ترقی کا قاتل کون؟یقینایہی ملک دشمن عناصر ہیں۔ہمارے پیارے نبی ? نے راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانے کو صدقہ قرار دیا ہے۔ایک روایت کے مطابق ایک شخص کہیں جارہا تھا۔راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی،پس اسے راستے سے ہٹا دیا۔اللہ تعالیٰ صرف اسی بات پر اس سے راضی ہوگیا اور اس کی بخشش کردی۔دہشت گردی کیا ہے؟سٹرکوں پر ٹائر جلاکر راستوں کو بندکرنا،گاڑیوں کو نذرآتش کرنا،انسانی جانوں سے کھیلنا،فائرنگ کرکے دہشت پھیلانا،دکانیں جلانا،ملکی املاک کو نقصان پہنچانا،یہ ساری منفی سرگرمیاں زمین پر فساد مچانے کی مختلف صورتوں میں سے ہیں اور یہی ساری چیزیں دہشت گردی میں شامل ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ارشاد باریٰ تعالیٰ ’’اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر،اللہ تعالیٰ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘بے گناہ اور معصوم افراد کے قاتلوں کے سہولت کار وں کے متعلق فرمان نبی?:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ? نے فرمایا:جو شخص کسی مسلمان کے ناحق قتل کا سہولت کار بنا اگر چہ وہ معاونت بالکل معمولی درجے کی ایک بات کی حد تک بھی ہو تو وہ شخص قیامت کے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے مایوس رہے گا۔واضح رہے کہ بلوچستان میں ہونے احتجاج،احتجاج نہیں بلکہ فساد ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...