درود و سلام کی برکتیں ، سعادتیں اور سیادتیں

اسلام کو مٹانے کے لئے کفر کے سارے حربے ناکام ہو چکے تھے، مکہ کے بے بس مسلمانوں پر انہوں نے مظالم کے پہاڑ توڑے لیکن ان کے جذبہ ایمان کو کم نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے وطن، گھر بار، اہل و عیال کو خوشی سے چھوڑنا گوارا کیا، لیکن دامن مصطفے ؐ  کو مضبوطی سے پکڑے رہے۔ کفار نے بڑے کر و فر اور شکوہ و طمطراق کے ساتھ مدینہ طیبہ پر بار بار یورش کی لیکن انہیں ہر بار ان مٹھی بھر اہل ایمان سے شکست کھا کر واپس آنا پڑا۔ اب انہوں نے حضور کریم کی ذات اقدس و اطہر پر طرح طرح کے بے جا الزامات تراشنے شروع کر دیئے تاکہ لوگ رشد و ہدایت کی اس نورانی شمع سے نفرت کرنے لگیں اور یوں اسلام کی ترقی رک جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرما کر ان کی ان امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ بتایا کہ یہ میرا حبیب  اور میرا پیارا رسول وہ ہے جس کی وصف و ثناء میں اپنی زبان قدرت سے کرتا ہوں اور میرے سارے ان گنت فرشتے اپنی نورانی اور پاکیزہ زبانوں سے اس کی جناب میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ تم چند لوگ اگر اس کی شان عالی میں ہرزہ سرائی کرتے بھی رہو، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جس طرح تمہارے پہلے منصوبے خاک میں مل گئے اور تمہاری کوششیں ناکام ہو گئیں اسی طرح اس ناپاک مہم میں بھی تم خائب و خاسر ہو گے۔اس آیت کریمہ کی جلالت شان کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے کے لئے پہلے اس کے کلمات طیبات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ آیت کریمہ میں فعل صلوہ(درود) کے تین فاعل ہیںاللہ ، فرشتے اوراہل اسلام…ترجمہ:  جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کی بھری محفل میں اپنے محبوب کریم کی تعریف و ثناء￿  کرتا ہے۔علامہ آلوسی  اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے درود بھیجنے کا یہ مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے ذکر کو بلند کر کے ، اس کے دین کو غلبہ دے کر اور اس کی شریعت پر عمل بر قرار رکھ کے اس دنیا میں حضور کریم کی عزت و شان بڑھاتا ہے اور روز محشر امت کے لئے حضور کی شفاعت قبول فرما کر اور حضور کو بہترین اجر و ثواب عطا کر کے اور مقام محمود پر فائز کرنے کے بعد اولین اور آخرین کے لئے حضورپاک کی بزرگی کو نمایاں کر کے اور تمام مقربین پر حضور پرنور کو سبقت بخش کر حضورکی شان کو آشکار فرماتا ہے۔اور جب اس کی نسبت ملائکہ کی طرف ہو تو صلوٰۃ کا معنی دعا ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے پیارے رسول کے درجات کی بلندی اور مقامات کی رفعت کے لئے دست بدعا ہیں۔ اگر آپ غور فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ مزکورہ جملہ اسمیہ ہے لیکن اس کی خبر جملہ فعلیہ ہے۔ تو یہاں دونوں جملے جمع کر دیئے گئے ہیں۔ اس میں راز یہ ہے کہ جملہ اسمیہ استمرار و دوام پر دلالت کرتا ہے اور فعلیہ تجدد و حدوث کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر دم، ہر گھڑی اپنے نبی مکرم ؐپر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور آپ کی شان بیان فرماتا ہے۔ اسی طرح اس کے فرشتے بھی اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ علامہ عراقی نے کیا خوب لکھا ہے۔
 ثنائے زلف و رخسار تو اے ماہ             
ملائک ورد صبح و شام کردند 
جب اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندے پر ہمیشہ اپنی برکتیں نازل فرماتا رہتا ہے اور اس کے فرشتے اس کی ثناء گستری میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور اس کی رفعت شان کے لئے دعائیں مانگتے رہتے ہیں، تو اے اہل ایمان تم بھی میرے محبوب کی رفعت شان کے لئے دعا مانگا کرو۔ علامہ ابن منظور :کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب مومن بارگاہ الہیٰ میں عرض کرتا ہے۔ترجمہ:  یعنی اے اللہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذکر کو بلند فرما۔ اس کے دین کو غلبہ دے اور اس کی شریعت کو باقی رکھ کر اس دنیا میں ان کی شان بلند فرما اور روز محشر ان کی شفاعت قبول فرما، ان کے اجر اور ثواب کو کئی گنا کر دے۔اگرچہ صلوٰہ بھیجنے کا ہمیں حکم دیا جا رہا ہے لیکن ہم نہ شان رسالت کو کما حقہ جانتے ہیں اور نہ اس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ اس لئے اعتراف عجز کرتے ہوئے ہم عرض کرتے ہیں:  یعنی مولا کریم تو ہی اپنے محبوب کی شان کو اور قدر و منزلت کو صحیح طور پر جانتا ہے۔ اس لئے تو ہی ہماری طرف سے اپنے محبوب پر درود بھیج جو اس کی شان کے شایان ہے۔ترجمہ: اس آیت میں ہمیں بارگاہ رسالت میں صلوٰہ  و سلام عرض کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور احادیث کثیرہ صحیحہ میں بھی درود شریف کی شان بیان فرمائی گئی ہے۔ ہم چند احادیث تبر کا ذکر کر دیتے ہیں تاکہ آپ کے دل میں بھی اپنے رسول مکرم، ہادی اعظم ، مرشد اکمل  پر درود بھیجنے کا شوق پیدا ہو۔(لسان العرب)ترجمہ: حضرت عمر سے مروی ہے۔ آپ  نے فرمایا ایک دن حضور باہر تشریف لے گئے۔ حضورکریمؐ کے ساتھ کوئی اور آدمی نہیں تھا۔ حضرت عمر پیچھے چلدیئے۔ آپ نے  حضور کریمؐ کو ایک وادی میں سر بسجود پایا اور چپکے سے ایک طرف ہٹ کر پیچھے بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ حضور پاک نے سجدہ سے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا اے عمر! تو نے بہت اچھا کیا کہ جب مجھے سر بسجود دیکھا تو ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے آ کر یہ بتایا کہ جو امتی مجھ پر ایک مرتبہ درود پاک پڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس بار درود پڑھے گا اور اس کے دس درجے بلند کر دے گا۔
 قابل توجہ بات جمعہ کے دن درود و سلام کی کثرت کیجے اور غروب آفتاب سے پہلے پہلے سورہ کہف کی تلاوت فرما لیجے،جمعالمبارک میں ایسی ساعت ہے جس کے اندر بندہ جو دعا کرے اللہ تعالیٰ اسے ضرور شرف قبولیت عطا فرماتا ہے اور اکثر علمائے کرام کے نزدیک وہ ساعت غروب آفتاب سے پہلے یعنی عصر کے بعد ہے۔لہذا کوشش فرما کر جمعہ المبارک کے دن عصر کے بعد سے لے کر مغرب تک قرآن پاک کی تلاوت درود پاک کی کثرت کیجئے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو جمع? المبارک کی برکتوں سے مالا مال فرمائے آمین۔سیرت النبی  کی یہ قلمی کاوش  پڑھنے کا شکریہ اسے دوسروں تک پہنچا کر صدقہ جاریہ کا حصہ بننیے !!غلطی کے لیے معذرت خواہ ہیں۔مرکز اہلسنت و جماعت مرکزی جامع مسجد محمدی حنفی /جامعہ تبیان القرآن (للبنین و للبنات)چٹھہ بختاور،اسلام آباد میں ہر جمعہ کی صبح بعد نماز فجر درود و سلام بھیجنے کے موضوع پر درس ہوتا ہے۔جسے اہل عشق کے استفادہ کیلئے پیش کیا جاتا ہے۔ ( نوٹ : صاحب مضمون مہتمم جامعہ تبیان القرآن للبنین و للبنات و،امیر تحریک اصلاح امت پاکستان ہیں

ای پیپر دی نیشن