ڈیتھ سیل کے بہت سے قصے سنے تھے۔ لیکن اب یہ قریب سے دیکھ بھی لیا۔
ڈیتھ سیل کیا ہے؟ یہ جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق جو کہانیاں مشہور ہیں اُن کی حقیقت سامنے آ سکے۔ ڈیتھ سیل، درحقیقت جیل کے اندر ایک اور جیل ہوتی ہے۔ جس میں سزا ئے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ قیدی سالہا سال تک اپنے شب و روز اُس وقت تک اس سیل میں گزارتے ہیں جب تک ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے اُن کی سزا کے خلاف ’’اپیل‘‘ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ فیصلے کے لیے موت کے ہر قیدی کو برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے شمار تہوار، عیدیں اِسی سیل میں گزر جاتی ہیں۔ اس دوران وہ جن حالات اور کیفیتوں سے گزرتا ہے یہ جذبات و محسوسات کی الگ کہانی ہے۔
قتل عمد میں جب کسی قیدی کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302کے تحت سیشن عدالت سے موت کی سزا ہو جاتی ہے تو اس قیدی کو باقی قیدیوں سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اور جیل کے مخصوص احاطے میں بنے ایک خصوصی سیل میں ڈال دیا جاتا ہے جو جیل کی اصطلاح میں ڈیتھ سیل کہلاتا ہے۔
موت کے قیدیوں کے لیے ڈیتھ سیل خوف اور دہشت کی علامت ہے۔ جہاں بے شمار مشکلات اُس کا پیچھا کرتی ہیں۔ دنوں میں ہی وہ ایسا ذہنی مریض بن جاتا ہے جس کا علاج کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ڈیتھ سیل میں منتقل کئے جانے کے بعد موت کے قیدی کا رابطہ جیل کے باقی قیدیوں سے منقطع کر دیا جاتا ہے۔ اُس کی بیرک تک صرف انہی جیل اہلکاروں کو رسائی حاصل ہوتی ہے جو بیرک کی ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔ دیگر اہلکاروں کو ڈیتھ سیل میں آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
کسی بھی موت کے قیدی کو 22گھنٹے تک مسلسل ڈیتھ سیل میں رہنا پڑتا ہے۔ صرف ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام اُسے چہل قدمی کے لیے سیل سے باہر نکالا جاتا ہے۔ یہ چہل قدمی یا واک ایک مخصوص راہداری میں ہوتی ہے۔ چہل قدمی کے دوران قیدی اپنے سامنے دیوہیکل دیوار کے باعث دوسری جانب کا منظر نہیں دیکھ پاتا۔ اُس پار کون کیا کر رہا ہے؟ ہر بات، ہر سرگرمی سے بے خبر رہتا ہے۔
یہ لمحے اُس کے لیے بڑے اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ سالہا سال تک وہ ان کا سامنا کرتا ہے۔ سزائے موت کے قیدی کو بھی اپنی سزا کے خلاف ’’اپیل‘‘ کا حق دیا گیا ہے۔ یہ حق وہ ہائی کورٹ میں استعمال کر سکتا ہے۔ ہائی کورٹ اگر اپیل مسترد کر دے تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ اُس کی اپیل کا آخری فورم ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سزا پر عملدرآمد روک دے اور رہائی کا حکم دے دے تو اُسے جیل اور ڈیتھ سیل سے نجات مل جاتی ہے۔ بصورت دیگر برسوں اسی ڈیتھ سیل میں رہنا پڑتا ہے۔ یہ دورانیہ کم و بیش دس سے بیس سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
ڈیتھ سیل ____درحقیقت سالہا سال کی قید تنہائی ہے جس میں وقت ہی نہیں گزرتا۔ ہر پل صدیوں کا محسوس ہوتا ہے۔ ڈیتھ سیل میں اقامت تکلیف دہ ہی نہیں، رونگٹے کھڑے کر دینے والی بھی ہوتی ہے۔ موت کی سزا کا حکم سنائے جانے سے پہلے جیل مینول کے مطابق قیدی کو جیل میں عام قیدی کی جو حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سزائے موت کے حکم کے بعد جیل مینول کے تحت وہ سلب کر لی جاتی ہے۔
جن دنوں باقاعدہ رپورٹنگ میں تھا، مجھے جیل بیٹ کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس دوران جیلوں کے معاملات کو بہت قریب سے دیکھا۔ بہت سے مشاہدات کا عینی گواہ ہوں۔ جہاں جرم کرنے والوں کے جرم دیکھ کر جرم سے نفرت ہوئی وہاں قیدیوں کی حالت زار نے بھی دکھی کیا۔ ڈیتھ سیل میں جو مسائل دیکھے وہ بڑے دگرگوں تھے۔ میرا ماننا ہے سنگین جرائم میں ملوث افراد اگرچہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے۔ انہیں قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیے۔ تاہم یہ بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا میں رائج قوانین کے مطابق قیدیوں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
لاہور کوٹ لکھپت میں واقع کوٹ لکھپت جیل، ڈسٹرکٹ جیل کے بعد ضلع کی دوسری بڑی سنٹرل جیل ہے۔ اس کے قریب کوٹ لکھپت ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ جبکہ یہاں سے گزرنے والی ذیلی سڑکیں کئی آبادیوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ ماڈل ٹائون کچہری بھی تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ کافی دنوں سے اس کوشش میں تھا کہ جیلوں کے حوالے سے کچھ ایسی چیزیں ایکسپوز کروں جن کا علم عام لوگ نہیں رکھتے۔ میں اچھی طرح جانتا تھا جیلوں میں کیا ہوتا ہے۔ قیدیوں کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں۔ خصوصی طور پر ڈیتھ سیل سے منسوب کہانیوں میں کتنی صداقت ہے؟
دو، تین دن پہلے جب فیصلہ کیا ڈیتھ سیل میں مقید قیدیوں کے جذبات و احساسات، حالات و واقعات اپنے پڑھنے والوں تک پہنچائوں۔ تو آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر سے رابطہ کیا۔ اُن کی وساطت سے ہی میری رسائی کوٹ لکھپت جیل کے ڈیتھ سیل تک ممکن ہو ئی۔ جیل میں کیمرہ اورموبائل لے جانے کی اجازت نہیں۔ تاہم مجھے ڈیتھ سیل میں عرصہ 10سال سے مقید سزائے موت کے قیدی ریاض سے گفتگو کی مشروط اجازت مل گئی۔ وڈیو کیمرے کی آنکھ سے موت کے قیدی کے جذبات و احساسات اور تاثرات کو محفوظ کرنا، میرے لیے واقعی بہت غیر معمولی واقعہ تھا۔
ڈیتھ سیل میں داخل ہوا تو ڈکیتی اور قتل کا مجرم ریاض سیل کی دیوار سے ٹیک لگائے ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا۔ آہٹ اور قدموں کی تیز آواز سے ریاض چونکا اور سر اٹھا کر گہری نظروں سے سیل کی موٹی سلاخوں کے پیچھے سے باہر جھانکنے لگا۔ میں نے بھی اپنی نگاہیں اُس پر مرکوز کر دیں۔ اشارہ کیا تو ریاض سلاخوں کے قریب آ گیا۔ چہرے کو اُس نے ماسک سے چھپا رکھا تھا تاہم اُس کی آنکھوں میں چھپی گہری اداسی کو میں صاف طور پر دیکھ سکتا تھا۔ میرے سوالات پر اُس نے کچھ نہیں چھپایا۔ روانی سے اپنی روداد سنانی شروع کر دی۔
مجرم نے بتایا قتل کے جرم میں اُسے سزائے موت ہو چکی ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے وہ اس’’ ڈیتھ سیل‘‘ میں ہے۔ ’’سزا‘‘ کے خلاف ہائی کورٹ میں اُس کی اپیل کئی سالوں سے زیر التوا ہے۔
ریاض نے بتایا کہ وہ کوٹ لکھپت کا ہی رہائشی ہے۔ تعلق ایک شریف اور متمول خاندان سے ہے۔ ابھی سیکنڈ ایئر ہی میں تھا کہ اُُس کی دوستی کچھ ایسے لوگوں سے ہو گئی جو اچھے اطوار نہیں رکھتے تھے۔ہم نے تین رکنی ڈکیت گینگ بنا لیا اور عشرت بھری زندگی گزارنے کے لیے ڈکیتیاں کرنے لگے۔ لاہور اور راولپنڈی میں کئی وارداتیں کیں۔ ڈکیتی کی ایک واردات کے لیے پنڈی کے جس گھر میں داخل ہوئے وہ ایک سیشن جج کا گھر تھا۔ چونکہ گھر کے باہر کوئی نیم پلیٹ نہیں تھی اس لیے معلوم نہیں ہو سکا کس کا گھر ہے۔ ڈکیتی کے دوران سیشن جج نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تو مزاحمت کے دوران میرے ہاتھ سے گولی چل گئی جو جج صاحب کو لگی اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
ریاض نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا جرم سے وابستگی نے اُسے برباد کر دیا۔ ورنہ وہ اچھی خاصی زندگی گزار رہا تھا۔ والدین بھی زندہ ہیں۔ جو، اب کافی بوڑھے ہو چکے ہیں۔ بیوی اور دو بچے ہیں۔ جن کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ ملاقات کے لیے بھی کوئی نہیں آتا۔ خاندان کی عزت و توقیر مٹی میں مل گئی ہے۔ جب والدین اور اہلخانہ کو میرے سہارے کی ضرورت تھی انہیںمیرا ساتھ چاہیے تھا، لیکن میں جیل میں ہوں۔ یہاں میرے شب و روز کیسے گزرتے ہیں یہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔ تکلیفوں اور اذیتوں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ ہر وقت انجانے اضطراب اور بیقراری کی کیفیت رہتی ہے۔ پھر ریاض کی آنکھیں والدین اور بچوں کو یاد کر کے بھیگ گئیں۔ اپنے جرائم کو یاد کر کے پشیمان دکھائی دینے لگا۔ مایوس بھی بہت نظر آیا۔ ریاض کا کہنا تھا ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اُس کی پہلی اپیل مسترد ہو چکی ہے۔ دوسری اپیل اب سپریم کورٹ میں دائر ہے۔ کب تاریخ سماعت مقرر ہوتی ہے، کیا فیصلہ آتا ہے، علم نہیں رکھتا۔ جرم کے راستے پر نہ چلتا تو ہرگز جیل میں نہ ہوتا۔ بوڑھے والدین اور فیملی کا سہارا ہوتا۔ اب بچوں کا کوئی مستقبل نہیں دیکھتا۔ میں جج صاحب کے قتل کا اعتراف کرتا ہوں۔ شاید بڑی عدالت میں سزا کے خلاف میری اپیل منظور ہو جائے۔ مجھے معافی بھی مل جائے لیکن خدااور جج صاحب کی فیملی کے آگے جوابدہ ہوں۔ وہ مجھے کیسے معاف کریں گے؟ یہ کہتے ہوئے ریاض زار و قطار رونے لگا۔ اپنے جرائم اور خطائوں پر ناد م اور پشیمان نظر آ رہا تھا۔