پاکستان کی مسلح افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔پاک فوج نے اپنے پروفیشنل ازم کی بدولت حربی تاریخ میں اپنا ایک الگ مقام پیدا کیا ہے۔محدود وسائل کے ساتھ بڑے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے پاک فوج کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ 21 تا 24 اکتوبر 2024 کے دوران حکومت آزاد کشمیر اور پاک فوج کے تعاون سے مظفرآباد میں نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کشمیر II کا انعقاد کیا گیا . کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ مظفرآباد میں منعقدہ نیشنل سکیورٹی ورکشاپ میں آزاد کشمیر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے زعماء، سیاستدانوں،وکلاء ،صحافیوں،تاجروں،علماء ومشائخ،پروفیشنلز،سول بیوروکریسی، طلبا و طالبات، صحافیوں سول سوسائٹی کے نمائندگان نے بڑی تعداد میں شرکت کی،سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان،ڈاکٹر مدیحہ لودھی (بذریعہ ویڈیو لنک) پروفیسر مقصود جعفری،مبشر نقوی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری عاطف رحمان، محترمہ مشعال حسین ملک نے قومی سلامتی اور کشمیر کی صورتحال کے تناظر لیکچرر دئیے اور شرکا ؤکی رہنمائی کی،ورکشاپ میں اعلیٰ عسکری حکام نے بھی شرکت کی، اختتام پر جملہ شرکاء میں سرٹیفکیٹس اور شیلڈ تقسیم کی گئیں۔شرکاء ورکشاپ نے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی ، آزاد کشمیر یونیورسٹی اور پاؤر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن آزاد کشمیر کے دفتر کا وزٹ کیا ، وزٹ کے دوران سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر ، وائس چانسلر آزاد کشمیر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر کلیم عباسی اور منیجنگ ڈائریکٹر پاؤر ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن مسعود قادر نے اپنے اپنے اداروں کی نسبت تفصیلی بریفننگ دیتے ہوئے اداروں کے قیام کے مقاصد کارکردگی اور آئیندہ اہداف سے آگاہ کیا اور مختلف سوالات کے جوابات دئیے ، سردار مسعود خان اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بین الاقوامی سطح پر مسلہ کشمیر کی نسبت پاکستان کے موقف اور بین الاقوامی برادری کے اس ضمن میں کردار پر روشنی ڈالی۔مقررین نے مجموعی عالمی تبدیلی کے تناظر میں کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتحال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے پاکستان اور کشمیر کے درمیان مضبوط تعلقات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔اس موقع پر سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے اپنے خطاب/ لیکچر میں کہا کہ پاکستان نے ہر فورم پر کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ پاکستان ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی رہا ہے جبکہ بھارت کشمیریوں کی آزادی میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ پانچ اگست، اکتیس اکتوبر اور یکم نومبر 2019اور اپریل 2020کے اقدامات کے ذریعے اور آرٹیکل 370اور 35?Aکو منسوخ اور نئے ڈومیسائل قانون نافذ کرکے مودی حکومت نے جموں وکشمیر کے خصوصی تشخص کو ختم کرتے ہوئے ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں منقسم کیا اور انہیں ہندوستان کے اندر ضم کر دیا۔ یہ ہندوستانی اقدامات بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور فورتھ جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پانچ اگست2019 سے پورے کشمیر میں دوہرا لاک ڈاون نافذ کیا گیا ہے اور نو لاکھ ہندوستانی قابض افواج نے پورے کشمیر کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ عملاً پورا کشمیر ایک جیل میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ چودہ ہزار کے قریب نوجوانوں کو جن کی عمریں دس، بارہ اور چودہ سال ہیں انہیں گرفتار کر کیکشمیراورہندوستان کی جیلوں میں مقید کر دیاگیا ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یورپ ہندوستان کا حلیف ہے اور اس کی حکومتیں خاموش ہیں لیکن ہمیں یورپ سمیت تمام طاقتور اقوام سے رابطہ رکھنا چاہیے، ان ممالک کی سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لوگ ہندوستان اور کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آوازیں اٹھا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے قائدین کھل کر اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ وہ ہندوتوا فلاسفی کوآگے بڑھاتے ہوئے ہندوستان اور کشمیر سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کریں گے اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کو پایا تکمیل تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی جنونی قیادت ہندوستان کو ''پویتر''کرنا چاہتے ہیں۔نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کشمیر II منعقدہ مظفرآباد کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے گیسٹ سپیکرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی منشاء اور مرضی کے مطابق ہی ممکن ہے ،پاکستان آرمی اور کشمیر کے تعلق کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان بن رہا تھا تو قائداعظم سے کسی نے پوچھا کہ انڈیا اور پاکستان کے تعلقات کو کیسے دیکھتے ہیں ان کا جواب تھا جیسے امریکہ اور کنیڈا کے تعلقات ہیں اس وقت امریکہ اور کنیڈا بارڈر لیس باہمی تھے دونوں ممالک کے لوگ بغیر ویزوں کیکاروبار،تعلیم،روزگارکے سلسلے آ جا سکتے تھے لیکن جب مسئلہ کشمیر سامنے آیا تو پاکستان کو فوج کھڑی کرنی پڑی گویا پاک فوج کا قیام ہی مسئلہ کشمیر کے نتیجے میں عمل ہیں لایا گیا ہے ان کا کہناتھا کہ آرمی اور آزاد کشمیر کا تعلق ایسا ہے جیسے ایک گھر کے رہنے والوں کا تعلق ہوتا ہے آزاد کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ پاک سے تعاون کیا فوج کو دفاعی نقطہ نظر سے آزاد کشمیر کے لوگوں نے فوج کی پشت پر رہ کر حوصلے بڑھائے جو قربانیاں آزاد کشمیر کے لوگوں نے دیں ان قربانیوں کا دوسرا کوئی خطہ دعویٰ نہیں کر سکتا،ایثار اور قربانیوں کا جتنا جذبہ کشمیر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اتنا دوسرے کسی صوبے کے لوگوں میں نہیں ہے انھوں نے کہا کہ 1965کی جنگ ہو یا 1971کی پاک بھارت جنگ بلوچستان اور (کے۔ پی۔ کے ،)میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہو پاک فوج میں موجود کشمیری آفیسرز اور جوانوں نے لازوال جانی قربانیاں پیش کیں آزاد کشمیر میں کوئی گاؤں یا گھرانہ ایسا نہیں جس میں کوئی شہید اور فوجی موجود نہ ہو ، دشمن ہماری صفوں میں خراشیں ڈالنے کی نا کام کوششوں میں مصروف عمل ہے ،مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت سے کشمیریوں کی رضامندی کے بغیر باہر و باہر کسی حل کی افواہیں اور شکوک و شہبات دشمن ہمارے دلوں میں ڈال رہا ہے ، پاک فوج کا قیام مسئلہ کشمیر پر عمل میں لایا گیا ہے کشمیر کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کسی جگہ پر( conflect) نہیں تھا ،پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کے بعد لڑنے کی ضرورت ہی نہ تھی پاک فوج کا قیام ہو یا ملک کو نیوکلئیر ملک بنانا ہو مقصد مسئلہ کشمیر ہی ہے شرکاء ورکشاپ کو آگاہ کیا گیا کہ ہر ملک کے کچھ کور انٹرسٹس ہوتے ہیں ،مملکت خداداد پاکستان کے بھی 4 کور انٹرسٹس ہیں جن میں مسئلہ کشمیر کا کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل،ملک کی نیوکلئیر پالیسی،مڈل ایسٹ سے تعلقات اور چائنہ سے تعلقات شامل ہیں،مڈل ایسٹ سے تعلقات اسلام کی وجہ سے اور وہاں خانہ کعبہ ہونے کی وجہ سے ہیں جبکہ دیگر تینوں کور انٹرسٹس کی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے نیوکلئیر پالیسی، چائنہ سے تعلقات بھی کشمیر کی وجہ سے ہیں ان چاروں کور انٹرسٹس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔گیسٹ سپیکرز نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی کشمیر کی طرح کوئی بھی (Protectorate) سٹیٹ موجود نہیں ہے، ریاست جموں وکشمیر میں کوئی غیر ریاستی زمین خرید سکتا ہے اور نہ کاروبار کر سکتا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ، پاکستان کا کوئی شہری آزاد کشمیر زمین نہیں خرید سکتا،ملازمت نہیں کر سکتا دیگر مراعات حاصل نہیں کر سکتا، مگر ہر کشمیری پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر سٹیٹ آف پاکستان میں اراضی خرید سکتا ہے سرکاری ملازمت کر سکتا ہے،ازادی کی اس سے بڑی اور کیا مثال دی جا سکتی ہے، اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا گیا کہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم،ڈپٹی وزیراعظم،وفاقی وزیر دفاع،وزیر خارجہ کشمیری النسل ہیں نہ صرف یہی بلکہ سیکرٹریز حکومت اور دیگر کئی اہم عہدوں پر کشمیری آفیسرز تعینات ہیں اور فرائض منصبی سرانجام دے رہے ہیں ،مختلف سوالات کے جوابات دیتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ قائد اعطم کے بعد کشمیری لیڈروں سردار ابراہیم خان اور سردار محمد عبدالقیوم خان نظریہ پاکستان پاکستان کو آگے لیکر چلے، آئین میں 13 ویں ترمیم کے ذریعے کونسل کے اختیارات آزاد حکومت اسمبلی کو منتقل ہونا اچھا اقدام ہے ۔ورکشاپ کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ آزاد کشمیر دنیا کی واحد سٹیٹ ہے جہاں سرکاری ملازمتوں کی شرح 32 فیصد ہے پاکستان میں سرکاری ملازمتوں کی شرح 6.3فیصد ،انڈیا میں 3۔8 فیصد ہے مقبوضہ کشمیر میں 2.5فیصد ہے،ہمیں سرکاری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ آباؤ اجداد کے پیشہ زراعت اور دیگر پر بھی توجہ دینا یو گی، اختتام پر شرکاء ورکشاپ راجہ مبشر اعجاز خان ، پرویز مغل ایڈووکیٹ اور دیگر نے ورکشاپ کو انتہائی معلوماتی اور نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے اس کے انعقاد پر آزاد کشمیر حکومت اور عسکری قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے قارئین اس مختصر سی ورکشاپ میں جو کچھ سیکھنے کو ملا اس سے لکھنے پڑھنے بولنے اور ملک و ملت کے خلاف بے جا اور منفی پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے میں یقیناً مدد مل رہی ہے ، بہت سے غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں ، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مملکت خداداد پاکستان کو سلامت رکھے آمین