’’برین واشنگ کی ایک ایک لانڈری!‘‘

Sep 28, 2009

اصغر علی کھرال
گزشتہ دنوں ہماری سیکورٹی فورسز نے مالاکنڈ کے علاقہ سے 100 سے زیادہ ایسے بچے بازیاب کئے۔ جن کی عمریں 6 سے 13 سال تھیں اور جن کو بطور خودکش حملہ آور باقاعدہ تربیت دی جا رہی ہے۔ ان ’’پوٹینشل‘‘ دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں کی اپنی معصوم جانوں کے ساتھ ہزاروں معصوم اور بے گناہ انسانوں کی تباہی کا سامان موجود تھا۔ برین واشنگ کے بعد بچوں کی نفسیاتی کیفیت یہ تھی کہ ان کے کہنے کے مطابق اگر ان کے حقیقی والدین اور بہن بھائی بھی ان کے ’’عزائم‘‘ کی راہ میں حائل ہوتے تو وہ ان کو رستے سے ہٹانے اور ٹھکانے لگانے میں ہرگز تامل نہ کرتے۔
سوات مالاکنڈ کے شورش زدہ علاقوں میں حکومتی رِٹ قائم کرنے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کیلئے ہمارے جوانوں اور افسروں نے آگ کا دریا تیرکے پار کیا ہے۔ ان کی یہ قربانیاں تاریخ کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ معروضی حالات میں یہ باور کرنا بے حد مشکل تھا کہ اتنے تھوڑے عرصے میں نہ صرف شورش کو دبا جائے گا بلکہ لاکھوں بے گھر لوگوں کو دوبارہ ان کے گھروں میں آباد کر دیا جائے گا۔ بلاشبہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن جو کچھ ہو چکا ہے اس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکرادا کریں کم ہے۔ افغانستان میں دنیا کی واحد سپر پاور اور اس کے اتحادیوں کا سالہاسال سے جو حشر ہو رہا ہے اور آج وہ جس دلدل میں پھنس چکے ہیں اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا!
اس ہفتے ایک چھوٹی سی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے سوات مینگورہ اور دیگر علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لاکھوں انسانوں میں سے 91 فیصد واپس آ چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں خورد و نوش کا انتظام بھی تسلی بخش ہے۔ رجسٹرڈ خاندانوں کو باقاعدہ 80 کلو آٹا ماہانہ، سبزیاں کھانے کا تیل، دالیں‘ بسکٹ، چینی اور دیگر سامان دیا جا رہا ہے اور سب سے بڑی بات جو انہوں نے تصدیق کی یہ تھی کہ تعلیمی شعبہ میں 80 فیصد سکول دوبارہ تعلیمی سرگرمیوں کیلئے کھل گئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہماری بری افواج نے جان پر کھیل کر ملک کو ایک انتہائی خطرناک سچوایشن سے باہر نکال لیا ہے اور اس کیلئے انہیں جتنا بھی خراج تحسین ادا کریں۔ کم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جن کو ہم دہشت گرد اور شورش پسند کہہ کر ان کا بے دردی سے خون بہانے اور قلع قمع کرنے پر اظہار اطمینان کر رہے ہیں۔ کیا یہ ہمارے ہی بھائی، بیٹے ہمارے خون اور ہمارے دین کا حصہ نہ تھے۔ مگر ان 100 زیر تربیت بچوں کی طرح غلط تربیت کے باعث گم کردہ راہ تھے اور کہا جاتا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس انتہائی اقدام یا خونی آپریشن کے سوا اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی!
سوال یہ ہے کہ اب ہم کون سے ایسے اقدامات کر رہے ہیں کہ یہ صورتحال پھر پیدا نہ ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دہشت گردوں اور خود کش حملہ آوروں کی افزائش کے مراکز (بریڈنگ سنٹرز) ختم ہوں۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کہاں کہاں آج بھی بچوں کے ذہنوں میں زہر بھرا جا رہا ہے انہیں جنونی خودکش حملہ آور اور دہشت گرد بنایا جا رہا ہے!
کبھی کبھی دینی مدارس پر اچانک ’’کریک ڈاؤن‘‘ کی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔ دینی مدارس ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں بچے دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اورہر دور میں ان کی زبردست خدمات ہیں۔ لیکن ان میں اگر کسی جگہ غلط تعلیم دی جا رہی ہے فی الواقع بچوں کو جنونی دہشت گرد بنایا جا رہا ہے تو ان کی چھان بین اور اصلاح کس کا فریضہ ہے؟
اگر ہم گم کردہ راہ نوجوانوں کو بے دردی سے تہِ تیغ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ تو اِن درسگاہوں کی ٹھیک ٹھاک جانچ پڑتال کرنے میں کیوں تامل ہے؟ کیا مانع ہے؟
افسوس یہ ہے کہ اس حوالے سے ہمارا اب تک کا ریکارڈ انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک حالیہ معتبر سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قائم 16,662 دینی مدارس میں 4500 ساڑھے چار ہزار مدارس تک کسی حکومتی ایجنسی کو رسائی حاصل نہیں۔ ان میں لاکھوں زیر تعلیم طلباء و طالبات میں سینکڑوں غیر ملکی بھی مقیم ہیں۔ جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جبکہ باقی 12,151 دینی مدارس میں ساڑھے 15لاکھ سے زائد طلباء طالبات زیرتعلیم ہیں جن مدارس کے بارے میں حکومت کے پاس معلومات ہیں وہ بھی نامکمل ناقص اور سطحی نوعیت کی ہیں اور ان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔حکومتی رسائی سے باہر رہنے والے اداروں میں سے 826 ادارے ایسے ہیں۔ جن سے ایک حکومتی سروے کے دوران رابطہ کیا گیا۔ مگر انہوں نے حکومت کو کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ امر حیران کن ہے بالخصوص اس وقت جبکہ ملک میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے اور دیگر مقامات کے علاوہ دینی مدارس سے ملکی و غیر ملکی شدت پسند پکڑے گئے ہیں اور ان سے بھاری اسلحہ بارود بھی برآمد ہوا ہے میاں چنوں کے قریب گاؤں میں ماسٹر ریاض کے گھر مدرسہ میں ذخیرہ کئے گئے دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے بھاری جانی و مالی نقصان ہوا۔ایک حکومتی سروے کے مطابق 11.365 دینی مدارس کو سالانہ 2 ارب 72 کروڑ 35 لاکھ سے زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔
لیکن (چندے کے علاوہ) اُن کے ذرائع کیا ہیں کسی کو معلوم نہیں؟ جن دینی مدارس تک حکومت کو رسائی حاصل ہے۔ ان میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ مدارس کی غالب اکثریت میں خالص دینی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے اساتذہ اور طلباء محب وطن ہیں لیکن اس امر سے انکار نہیں ہے کہ دینی مدارس میں اساتذہ اور طلباء کے روپ میں کتنے ملکی یا غیر ملکی دہشت گرد یا ہونے والے دہشت گرد گھسے بیٹھے ہوں!
سروے کے مطابق ملک میں 40 فیصد لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں وہ اپنے بچوں کو مناسب تعلیم نہیں دلوا سکتے۔ ان کے بچے چائلڈ لیبر کے چنگل میں چلے جاتے ہیں یا ان کو دینی مدارس میں بھیج دیتے ہیں جہاں نہ صرف تعلیم مفت ہے کھانے پینے اور رہائش کا بھی مفت انتظام ہے۔
بلاشبہ آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ تمام دینی مدارس تک حکومت رسائی اور ان سے جملہ مطلوبہ معلومات کا حصول ہے۔ یہ کام ’جنگی‘ بنیادوں پر کرنے والا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ دینی مدارس میں خاصی تعداد کے منتظمین کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے نئے مضامین وقت کی ضرورت ہیں۔ سائنس سمیت کوئی جدید مضمون بھی ’’غیر اسلامی‘‘ نہیں ہے! آپ یقین کریں کہ آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی دنیا کی بہترین یونیورسٹیاں بھی ابتداء میں دینی مدارس ہی تھے۔
تاہم حکومت کا فریضہ ہے کہ جہاں جہاں ضرورت ہو۔ نونہالوں کو صرف ابلۂ مسجد بنانے کی بجائے کارآمد شہری بنانے کیلئے دینی مدرسوں میں جدید مضامین کیلئے اضافی سٹاف اور دیگر اخراجات کے لئے فنڈز مہیا کرے۔
آخر میں اتنی گزارش ہے کہ ہمیں اس وقت تک اطمینان سے نہیں بیٹھنا چاہئے۔ جب تک ہم ملک سے دہشت گردی کا ایک ایک ’’بریڈنگ سنٹر‘‘ اور ’’برین واشنگ‘‘ کی ایک ایک ’’لانڈری‘‘ کو ختم نہ کر لیں!
مزیدخبریں