عدلےہ سے امےدےں

رانا اعجاز احمد خان .........
قوم نے معزول ججوں کی بحالی کی تحرےک کے دوران عدلےہ سے جوامےدےں وابستہ کی تھےں عدلےہ ان پر مکمل طور پر آئےن اور قانون کے دائرے مےں رہتے ہوئے پورا اتر رہی ہے۔ عوام کو رےلےف پہنچانا تو حکومت کی ذمہ داری ہے لےکن جب حکومت کی طرف سے اپنے فرائض عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق ادا نہےں ہو رہے ہوتے عوام ظلم اور ناانصافی کا واوےلا کرتے ہےں تو عدلےہ کو مجبوراً نوٹس لےنا پڑتا ہے عدلےہ کا ےہ کام اپنے آپ کو ہےرو ثابت کرنے اور ہردلعزےزی کے لئے نہےں بلکہ عوام کے مسائل جو حل ہونے کے دروازے بند ہونے کے بعد اےسا کرتی ہے۔حکومت نے تےل کی قےمتوں پر بلاجواز ٹےکس لگاےا تو سپرےم کورٹ نے ےہ ٹےکس کالعدم قرار دےا دےا۔ عوام کو چند گھنٹے رےلےف ملا تھا کہ حکومت نے چالاکی سے اس ٹےکس کا نام بدل کر اتنا ہی اضافہ کردےا جتنی سپرےم کورٹ کی سفارش پر کمی ہوئی تھی۔ اس موقع پر عدلےہ نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہےں کےا۔ اےسا ہوتا تو اےک اور بحران جنم لےتا۔ عدلےہ نے صبر اور برداشت سے کام لےا۔ حالانکہ اس کا مظاہرہ حکومت کو کرنا چاہےے تھا بہرحال عدلےہ کی دانش مندی کی وجہ سے اےک بحران ٹل گےا۔ ہو سکتا ہے حکومت نے اپنی نادانی کو اپنی کامےاب حکمت عملی گردانا ہو۔
جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی مےں پوری عدالتی مشےنری اپنے فرائض کو اےک مشن سمجھ کر ادا کررہی ہے چےف جسٹس مسٹر جسٹس خواجہ محمد شرےف کی سربراہی مےں ڈوےژن بےنچ نے چےنی کی قےمتوں کے تعین کے حوالے سے اےک تارےخی فےصلہ دےا عدلےہ کا کام فےصلہ کرنا ہے۔ آئےن اور قانون کے مطابق حکومت کا کام اس پر عمل درآمد کروانا ہے جس فرےق کے خلاف فےصلہ ہوا اس نے اسے ماننے سے انکار کےا۔ حکومت نے بھی عمل درآمد سے معذوری ظاہرکی۔ ےہ دراصل ہر حکومت کی طرف سے عدلےہ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے لاہور ہائی کورٹ سے اپنے خلاف فےصلہ آنے پر جو فرےق معاملہ سپرےم کورٹ لے گےا سریم کورٹ نے عدالت عالےہ کے فےصلے ےعنی چےنی مارکےٹ مےں 40 روپے کلو فروخت ہونے کے خلاف حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کےا تو بھی مارکےٹ مےں چےنی اس رےٹ پر دستےاب نہےں ہے جو ہائی کورٹ نے مقرر کےا ہے ےہ اےسے ہی کہ فےصلہ ان کے حق مےں آئے قبول، دوسری صورت مےں نامنظور.... ناجائز منافع خوری کی خاطر عدالتی احکامات کو مسترد کردےنا کہاں کا انصاف ہے۔ حکومت ان منافع خوروں پر ہاتھ ڈالنے سے گرےزاں ہےں۔ اس کی وجہ اکثر شوگر ملز سےاست دانوں کی ملکےت ہےں ان مےں سے اکثر حکومت مےں ہےں اور کچھ فرےنڈلی اپوزےشن مےں۔عدلےہ رےاست کا اہم ستون ہے۔ حکومت اور عدلےہ کے پاس بہترےن کو آرڈی نیشن ہونی چاہےے نہ کہ حکومت عدلےہ کو اپنا حرےف سمجھنے لگے۔ حکومت کی طرف سے عدالتی فےصلوں کے احترام سے اس کی ساکھ مضبوط ہوتی ہے لےکن جہاں جان بوجھ کر عدالتی فےصلوں پر عمل درآمد کی راہ مےں رکاوٹےں کھڑی کی جاتی ہےں۔چےف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب خواجہ محمد شرےف نے اٹک بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ”اب ہمےں انصاف ہوتا ہوا نظرآنے کی تحرےک چلانا ہوگی“۔ عوام کو عدلےہ سے اب کوئی خاص گلہ نہےں۔ جوڈےشل پالےسی کے نفاذ کے بعد سے معاملات بتدرےج اور تےزی سے بہتری کی طرف گامزن ہےں تاہم کسی بھی کام مےں بہتری کی ہمےشہ گنجائش ہوئی ہے۔ مےری رائے مےں مقدمات نمٹانے کی رفتار اب بھی سلو ہے اس مےں تےزی کی گنجائش ہے ماتحت عدلےہ مےں بھی اصلاح کی بہت گنجائش ہے جسٹس افتخار احمد چودھری اور ان کی ٹےم جس جانفشانی سے کام کررہی ہے توقع ہے کہ عدالتی تارےخ مےں جلد انقلاب برپا ہوگا اور لوگوں کو جلد اور سستا انصاف ملے گا۔ ےہ کام جلد بھی ہوسکتا ہے اگر حکومت بھی عدلےہ کا ساتھ دے تو۔

ای پیپر دی نیشن