امیر نواز نیازی ۔۔۔
برصغیر کے شیر دریا‘ دریائے سندھ کا وجود جہاں قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ وہاں اس خطہ ارض پر بسنے والی مخلوق خدا کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بے پایاں انعام اور احسان بھی ہے اسی کے دم قدم سے ہی یہاں زندگی رواں دواں ہے۔ یہ نہ ہوتا تو یہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔ برصغیر کا یہ طویل ترین دریا ہمالیہ کی گود میں واقع جھیل مانسرور سے اپنی زندگی کا ارتقا کرتا ہے اور پھر کشمیر اور خیبر پی کے، کے خوبصورت کوہساروں سے گزرتا ہوا کالا باغ کے مقام پر پنجاب کے میدانی علاقے میں ایک شان دلربائی سے قدم رکھتا ہے اور پھر شمال سے جنوب کی طرف رواں دواں پنجاب اور سندھ کے وسیع میدانوں اور ریگزاروں کو سیراب کرتا ہوا سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا وطن عزیز کے وجود کا ایک اہم اور ناگزیر عضو ہے تو ہمارے بچپن کا ہم جولی اور دوست بھی ہے کہ ہمارا گاوں بلومیل‘ میانوالی شہر کے قریب عین اس کے بائیں کنارے پر واقع ہے اور یوں ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی گود میں گزرا ہے اور ہم اس کے تمام تر فیض اور غیض کے رازداں ہیں تو اسکی مہربانیوں اور حشر سامانیوں کے چشم دید گواہ بھی اور اس کے سارے مہر اور قہر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں۔
ہمیں تو اپنے بچپن کی وہ یادیں اب بھی سحرزدہ رکھتی ہیں جب ہم گاوں کے لڑکوں کے ساتھ اس کی لہروں پر لہراتے تیرتے پھرا کرتے تھے۔ انہی پانیوں اور انکی طغیانیوں میں رہ کر ہم نے سوئمنگ کے سارے رموز و گر سیکھے تھے اور وہ لمحہ تو ہم اب بھی نہیں بھول پائے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دفعہ تیرتے ہوئے گہرے پانی میں چلے گئے اور کوشش کے باوجود اس گرداب سے نکل نہ پائے اور ڈوب ہی گئے تھے کہ ہمارے ساتھی لڑکوں نے بڑی ہمت سے ہمیں وہاں سے نکالا اور ہمیں یوں ایک نئی زندگی عطا ہوئی اور یہاں ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں بھی دریا عروج و زوال سے دوچار رہتا تھا۔ اس کا پانی کبھی اتار میں ہوتا تو کبھی چڑھاو پر موسموں کے تغیر و تبدل کے ساتھ اس کے پانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں بالخصوص برسات میں دریا عام طور پر اپنے عروج پر ہوتا تھا تو اس میں طغیانیوں کی بھی فراوانیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یہاں آبادی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ لوگ اپنی رہائش کیلئے اونچے مقامات پر بستیاں بسایا کرتا تھے اور نشیبی علاقوں میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور گھر بھی وہ ”میک شفٹ“ طرز کے بنایا کرتے کہ کبھی سیلاب ان تک پہنچے بھی تو وہ آسانی سے دیگر مقامات پر منتقل ہو جائیں نہ کسی حکومتی امداد کا انتظار نہ کسی بیرونی مدد کیلئے چیخ و پکار اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ طے کر لیا کرتے اور دریا بھی کبھی طغیانی پر ہوتا تو عام طور پر اپنی گزرگاہ تک محدود رہتا یا پھر ساتھ کے نشیبی علاقوں میں پھیل جاتا اور کوئی بڑا نقصان نہ کرتا۔ سردیوں کا آغاز ہوتے ہی پانی ان نشیبی علاقوں سے اتر جاتا اور اپنے پیچھے پہاڑوں سے لائی ہوئی زرخیز مٹی کی ایک تہہ سی چھوڑ جاتا۔ جو زراعت کیلئے اکسیر کا کام دیتی۔ کھاد کی ضرورت نہ کرم کش ادویات کی طلب ہل چلایا‘ بیج ڈالا اور بھرپور فصل حاصل کر لی۔ موسم‘ دریا اور کاشت کاروں کے درمیان ان لکھا ”بقائے باہمی“ کا یہ حسین نظام اور توازن قائم ودائم رہا۔ لیکن یہاں صورت حال اس وقت بدلی یا بگڑی جب برصغیر پاک و ہند تقسیم ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور حالات کی ستم ظریفیوں سے پاکستان پنجاب کے تین دریاوں ستلج‘ بیاس اور راوی سے محروم کر دیا گیا۔ تو پنجاب بھر میں پانی کی کمی کو دور کرنے کا سارا بوجھ دریائے سندھ پر ہی آن پڑا تو رابطہ نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی جہلم میں‘ جہلم کا پانی چناب میں اور چناب کا پانی راوی میں ڈال کر اس کمی کو پورا کیا گیا تو گویا دریائے راوی میں پانی کی کمی کو دریائے سندھ سے ہی پورا کیا گیا۔ دوسری طرف ملک بھر میں آبادی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھی‘ بڑھتی رہی تو خوراک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دریائے سندھ سے پنجاب اور سندھ میں نئی نہریں نکالی گئیں۔ تو یوں دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی واقع ہوئی تو یہاں کی زمینوں کے کوائف اور کیفیات بھی تغیر پذیر ہوئیں اور یوں کچے کے علاقے اجڑتے چلے گئے۔ سیلابی پانی معدوم ہوا۔ تو زیر زمین پانی کی سطح بھی نیچے گرتی چلی گئی۔ اس کمی کو دور کرنے کیلئے لوگوں نے یہاں ٹیوب ویل اور دیگر تنصیبات نصب کرنی شروع کر دیں اور پھر دریا میں سیلاب آنے کم ہوئے تو لوگوں نے ان نشیبی علاقوں میں بھی جو کبھی دریا کی زد میں رہتے تھے اپنے گھر تک بنانے شروع کر دئیے بلکہ بڑی بڑی بستیاں آباد کر لیں اور اب جب ایک عرصہ بعد دریا میں پانی کچھ غیر معمولی مقدار میں آیا تو راستے میں ساری رکاوٹیں اور تنگی گذرگاہ پا کر آپے سے باہر ہو گیا اور یوں بپھر کر چاروں طرف تباہی ہی تباہی مچا دی کہ یہی قدرت کا تقاضا بھی ہے تو ایک شاعر کا الہام بھی ........
پاتے نہیں رہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
تو گویا یہاں قدرت کے نظام اور توازن میں بگاڑ پیدا کرنے سے ہی یہ بگاڑ پیدا ہوا اور اس قدر تباہی آئی۔
یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اپنے مفادات تک ہی محدود رکھا ہے اور کسی حکومت یا حکمران نے یہاں اس تبدیل شدہ صورت حال کا ادراک کیا ہے نہ اس کے تدارک کیلئے کوئی مناسب منصوبہ بندی کی ہے جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ ہمارے حکمران تو اب اپنے مفادات کی نگہبانی اور آپس کی توتکار میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں ایسی کوئی دعا مانگنے کی بھی فرصت نہیں الامان والحفیظ۔
برصغیر کے شیر دریا‘ دریائے سندھ کا وجود جہاں قدرت کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ وہاں اس خطہ ارض پر بسنے والی مخلوق خدا کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بے پایاں انعام اور احسان بھی ہے اسی کے دم قدم سے ہی یہاں زندگی رواں دواں ہے۔ یہ نہ ہوتا تو یہاں کچھ بھی نہ ہوتا۔ برصغیر کا یہ طویل ترین دریا ہمالیہ کی گود میں واقع جھیل مانسرور سے اپنی زندگی کا ارتقا کرتا ہے اور پھر کشمیر اور خیبر پی کے، کے خوبصورت کوہساروں سے گزرتا ہوا کالا باغ کے مقام پر پنجاب کے میدانی علاقے میں ایک شان دلربائی سے قدم رکھتا ہے اور پھر شمال سے جنوب کی طرف رواں دواں پنجاب اور سندھ کے وسیع میدانوں اور ریگزاروں کو سیراب کرتا ہوا سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ یہ دریا وطن عزیز کے وجود کا ایک اہم اور ناگزیر عضو ہے تو ہمارے بچپن کا ہم جولی اور دوست بھی ہے کہ ہمارا گاوں بلومیل‘ میانوالی شہر کے قریب عین اس کے بائیں کنارے پر واقع ہے اور یوں ہماری زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی گود میں گزرا ہے اور ہم اس کے تمام تر فیض اور غیض کے رازداں ہیں تو اسکی مہربانیوں اور حشر سامانیوں کے چشم دید گواہ بھی اور اس کے سارے مہر اور قہر اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں۔
ہمیں تو اپنے بچپن کی وہ یادیں اب بھی سحرزدہ رکھتی ہیں جب ہم گاوں کے لڑکوں کے ساتھ اس کی لہروں پر لہراتے تیرتے پھرا کرتے تھے۔ انہی پانیوں اور انکی طغیانیوں میں رہ کر ہم نے سوئمنگ کے سارے رموز و گر سیکھے تھے اور وہ لمحہ تو ہم اب بھی نہیں بھول پائے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دفعہ تیرتے ہوئے گہرے پانی میں چلے گئے اور کوشش کے باوجود اس گرداب سے نکل نہ پائے اور ڈوب ہی گئے تھے کہ ہمارے ساتھی لڑکوں نے بڑی ہمت سے ہمیں وہاں سے نکالا اور ہمیں یوں ایک نئی زندگی عطا ہوئی اور یہاں ہمیں یہ بھی یاد ہے کہ اس زمانے میں بھی دریا عروج و زوال سے دوچار رہتا تھا۔ اس کا پانی کبھی اتار میں ہوتا تو کبھی چڑھاو پر موسموں کے تغیر و تبدل کے ساتھ اس کے پانی میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں بالخصوص برسات میں دریا عام طور پر اپنے عروج پر ہوتا تھا تو اس میں طغیانیوں کی بھی فراوانیاں ہوا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں یہاں آبادی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ لوگ اپنی رہائش کیلئے اونچے مقامات پر بستیاں بسایا کرتا تھے اور نشیبی علاقوں میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے اور گھر بھی وہ ”میک شفٹ“ طرز کے بنایا کرتے کہ کبھی سیلاب ان تک پہنچے بھی تو وہ آسانی سے دیگر مقامات پر منتقل ہو جائیں نہ کسی حکومتی امداد کا انتظار نہ کسی بیرونی مدد کیلئے چیخ و پکار اپنی مدد آپ کے تحت سب کچھ طے کر لیا کرتے اور دریا بھی کبھی طغیانی پر ہوتا تو عام طور پر اپنی گزرگاہ تک محدود رہتا یا پھر ساتھ کے نشیبی علاقوں میں پھیل جاتا اور کوئی بڑا نقصان نہ کرتا۔ سردیوں کا آغاز ہوتے ہی پانی ان نشیبی علاقوں سے اتر جاتا اور اپنے پیچھے پہاڑوں سے لائی ہوئی زرخیز مٹی کی ایک تہہ سی چھوڑ جاتا۔ جو زراعت کیلئے اکسیر کا کام دیتی۔ کھاد کی ضرورت نہ کرم کش ادویات کی طلب ہل چلایا‘ بیج ڈالا اور بھرپور فصل حاصل کر لی۔ موسم‘ دریا اور کاشت کاروں کے درمیان ان لکھا ”بقائے باہمی“ کا یہ حسین نظام اور توازن قائم ودائم رہا۔ لیکن یہاں صورت حال اس وقت بدلی یا بگڑی جب برصغیر پاک و ہند تقسیم ہوا اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور حالات کی ستم ظریفیوں سے پاکستان پنجاب کے تین دریاوں ستلج‘ بیاس اور راوی سے محروم کر دیا گیا۔ تو پنجاب بھر میں پانی کی کمی کو دور کرنے کا سارا بوجھ دریائے سندھ پر ہی آن پڑا تو رابطہ نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی جہلم میں‘ جہلم کا پانی چناب میں اور چناب کا پانی راوی میں ڈال کر اس کمی کو پورا کیا گیا تو گویا دریائے راوی میں پانی کی کمی کو دریائے سندھ سے ہی پورا کیا گیا۔ دوسری طرف ملک بھر میں آبادی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھی‘ بڑھتی رہی تو خوراک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے دریائے سندھ سے پنجاب اور سندھ میں نئی نہریں نکالی گئیں۔ تو یوں دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی واقع ہوئی تو یہاں کی زمینوں کے کوائف اور کیفیات بھی تغیر پذیر ہوئیں اور یوں کچے کے علاقے اجڑتے چلے گئے۔ سیلابی پانی معدوم ہوا۔ تو زیر زمین پانی کی سطح بھی نیچے گرتی چلی گئی۔ اس کمی کو دور کرنے کیلئے لوگوں نے یہاں ٹیوب ویل اور دیگر تنصیبات نصب کرنی شروع کر دیں اور پھر دریا میں سیلاب آنے کم ہوئے تو لوگوں نے ان نشیبی علاقوں میں بھی جو کبھی دریا کی زد میں رہتے تھے اپنے گھر تک بنانے شروع کر دئیے بلکہ بڑی بڑی بستیاں آباد کر لیں اور اب جب ایک عرصہ بعد دریا میں پانی کچھ غیر معمولی مقدار میں آیا تو راستے میں ساری رکاوٹیں اور تنگی گذرگاہ پا کر آپے سے باہر ہو گیا اور یوں بپھر کر چاروں طرف تباہی ہی تباہی مچا دی کہ یہی قدرت کا تقاضا بھی ہے تو ایک شاعر کا الہام بھی ........
پاتے نہیں رہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
تو گویا یہاں قدرت کے نظام اور توازن میں بگاڑ پیدا کرنے سے ہی یہ بگاڑ پیدا ہوا اور اس قدر تباہی آئی۔
یہاں افسوس کی بات یہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اپنے مفادات تک ہی محدود رکھا ہے اور کسی حکومت یا حکمران نے یہاں اس تبدیل شدہ صورت حال کا ادراک کیا ہے نہ اس کے تدارک کیلئے کوئی مناسب منصوبہ بندی کی ہے جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنی امان میں رکھے۔ ہمارے حکمران تو اب اپنے مفادات کی نگہبانی اور آپس کی توتکار میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں ایسی کوئی دعا مانگنے کی بھی فرصت نہیں الامان والحفیظ۔