امریکی چیلنج حکومت اور اسٹیبلشمنٹ

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کل جمعرات کو کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو امریکی چیلنج کا باعزت طور پر سامنا کرنے کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس اقدام کے مفید ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کچھ باخبر سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ ہماری دفاعی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں فیصلہ کرنے والی اصل قوت جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے جس کے ساتھ امریکہ کی فوجی قیادت براہ راست مذاکرات کرتی ہے۔ دھمکیاں بھی دیتی ہے اور معاملات بھی طے کرتی ہے اس نے سول حکومت کو کس حد تک اعتماد میں لے رکھا ہے۔ امریکہ پاکستان کی سویلین منتخب حکومت کے چوٹی کے نمائندوں صدر یا وزیراعظم کے ساتھ براہ راست معاملات طے کیوں نہیں کر رہا ہے صدر زرداری نے اس مسئلے پر چپ کیوں سادھ رکھی ہے۔ موجودہ حالات میں یہ سوال اس لئے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اتنے بڑے چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لئے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہونا چاہئے تھا۔ جو ایک آئینی ادارہ ہے۔.... ادارہ جو منتخب حکومت اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کو باہم مل بیٹھ کر حقیقی معلومات کے تبادلے اور اہم ترین فیصلے کرنے کے مواقع مہیا کرتا ہے جن کی روشنی میں خاص طور پر دفاعی امور کے بارے میں قومی امنگوں اور ملکی مفادات کی آئینہ دار پالیسی وضع کرکے نافذ کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے اگر وزیراعظم کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا تفصیلی اجلاس منعقد کرنے کے بعد کل جماعتی کانفرنس طلب کرتے اور ملک بھر کے سیاسی رہنما¶ں کو اس کمیٹی کے فیصلوں کے بارے میں اعتماد میں لیتے تو زیادہ بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی تھی۔
اب بھی جبکہ آپ نے قومی سیاسی رہنما¶ں کو اعتماد میں لینے کا جیسا تیسا فیصلہ کیا ہے تو لازم ہے اس اجلاس کو محض پی آر مشق کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن کے قائدین کی جانب سے پرجوش تقریریں ہو جائیں اور حقیقی پالیسی کے خطوط کہیں اور طے ہوں۔ حکومت کو بھی امریکہ کے حوالے سے دو رخی پالیسی ترک کرنا ہو گی۔
2008ءکے انتخابات کے بعد اسی سال ماہ اکتوبر میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خارجہ امور اور دفاعی معاملات کے بارے میں اتفاق رائے سے جو قرارداد منظور کی گئی تھی اگر اس کے الفاظ اور روح پر عمل کر لیا جاتا تو آج کے چیلنج سے عہدہ برا ہونا آسان ہوتا۔ لیکن ہم نے اندرون خانہ امریکہ کو ڈرون حملے کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ہماری اس دوغلی پالیسی کا اس نے یہ فائدہ اٹھایا کہ 2 مئی 2011ءکو ایبٹ آباد آپریشن کیا اسامہ بن لادن کو قتل کیا اس کی لاش اٹھا کر لے گئے۔ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ 13 مئی کو ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ یار لوگوں کو قوم کے جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے معافی مانگنا پڑی لیکن پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آئی۔ اسی سبب کی بنا پر امریکی آج پھر دندنا رہے ہیں۔ انہیں افغانستان میں شکست کا سامنا ہے۔ پاکستان کی فوج سے توقع باندھے بیٹھے ہیں کہ وہ اس شکست کو فتح میں تبدیل کرکے طشتری میں رکھ کر تحفے کے طور پر ان کی بارگاہ میں پیش کر دے گی۔ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ لیکن امریکہ کی ضرورت ہے کیونکہ ایک تو واحد سپر طاقت اپنے ماتھے پر ناکامی کا داغ نہیں لگوا سکتی دوسرے اگلے برس صدر اوباما کو انتخابات کا سامنا ہے جسے وہ افغانستان میں فتح حاصل کئے بغیر جیت نہیں سکتے۔ تاہم یہ امریکہ کا درد سر ہے پاکستان کا ہرگز ہرگز نہیں۔
ہمارے دیرینہ اور انتہائی قابل اعتماد دوست جنہوں نے ہر نازک موقع پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے عوامی جمہوریہ چین اور سعودی عرب اس بحران میں بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی ہے لیکن یہاں بھی بنیادی سوال یہ ہے کیا چین اور سعودی عرب استحکام کے لئے رہ گئے ہیں۔ ہم جب امریکہ کی طرف سے مایوس ہوں تو ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ان کی جانب دیکھنا شروع کر دے۔ چین‘ سعودی عرب ایران اور ترکی ہمارے دوست اور قابل بھروسہ ہےں یہ دوست ملک ہمارے بھائی ہیں جن کے ساتھ ہمارا دفاعی اتحاد ہونا چاہئے جن کے ساتھ ہمارے تعلقات میں محض اس وقت گرم جوشی نہیں آنی چاہئے جب امریکہ دوستی کی آڑ میں کھلم کھلا دشمنی پر اتر آیا ہو۔ ان ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت ایسی ہونی چاہئے کہ گرم سرد دونوں طرح کے حالات میں ہم ایک دوسرے کے مددگار بن کر کھڑے نظر آئیں امریکہ اور بھارت دونوں پر ہر دم واضح رہے کہ پاکستان خطے میں اکیلا نہیں۔ نہ امریکی بیساکھیوں کا محتاج ہے۔

ای پیپر دی نیشن